گزشتہ روز کسی تحریر میں کمپوزر کی غلطی سے’’زُہَیر‘‘ کومسلسل ’’ظہیر‘‘ ہی لکھا گیا،آج کل چونکہ کا تب اور کمپوزر کو بہت سے خون معاف ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ’’پروف ریڈرز‘‘کو بھی۔۔۔، کچھ رہی سہی کسر ہمارے انگلش میڈیم بچوں نے نکال دی ہے،جن کے ہاں ض، ظ اور ذ کا کوئی فرق باقی نہیں رہا،وہ مضبوط کو’’مظبوت‘‘ بھی لکھ سکتے ہیں اور’’مظبوط‘‘بھی۔۔۔،ورنہ پرانے اساتذہ کے ہاںتو ایسی کبیرہ غلطی کی کوئی گنجائش نہ ہوتی تھی،اور دوسری بات یہ کہ لفظ لکھنے یا ٹائپ کرنے والے کو کیا پتہ کہ وہ کس کے نام کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔یہ زُہَیر بروزنِ’’زُبیر‘‘ہے،زَہُر بمعنی شگوفہ۔۔۔ یہ تصغیر کا صیغہ ہے، جبکہ ظہیر اسم فاعل ہے،جس کا معنی معین و مددگار کے ہیں،اس نام میں دوسری انفرادیت یہ ہے کہ’’سَلمی‘‘ہمیشہ سین کی زبر کے ساتھ ہی معروف ہے،صرف یہی ایک نام ہے جو سین کی پیش کے ساتھ ’’ابی سُلمیٰ‘‘ہے ،’’سُلمیٰ‘‘زُہَیر کی بہن تھی،زُہیر کے والد ربیعہ بن ریاح کی یہ کنیت اس کی بیٹی کے سبب مشہور ہوئی،زُہَیر بن ابی سُلمی زمانہ جاہلیت کا نامور اور’’صاحب معلقہ‘‘شاعر تھا۔’’صاحبِ معلقہ‘‘کو آج کے دور میں آپ ادب کے’’نوبل ایوارڈ‘‘سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ، زُہیر کے بڑے مداح تھے،آپ نے ایک دفعہ ہَرم بن سنان کے بیٹے سے فرمایا کہ :’’زُہیر آپ لوگوں کی بڑی تعریف کیا کرتا تھا‘‘اُس نے آگے سے جواب دیا،کہ ہم بھی تو اس پر انعامات کی بارش کیے رکھتے تھے،اس پر حضرت عمرؓ نے بڑا تاریخی جملہ کہا،آپؓ نے فرمایا:’’جو تم لوگوں نے اُس کو دیا وہ تو ختم ہو گیا،لیکن جو کچھ وہ تم لوگوں کو دے گیا ، وہ سدا باقی رہے گا‘‘۔ ویسے تو شعراء جس کی مدح و ستائش کی طرف مائل ہوں اس میں بڑی فیاضی بھی کر جاتے ہیں، لیکن زُہیر اس میں بھی محتاط واقعہ ہواکرتا تھا،جس پر حضرت عمر ؓ ہی کا یہ قول بڑا وقیع اور معتبر ہے: "لا یمدح الرجل اِلاَّ بِمَا فیہ"یعنی وہ جس کی مدح کرتا ہے،اُنہی اوصاف کی بنا پر کرتا ہے،جو فی الواقع اُس میں پائے جاتے ہیں۔بہرحال زُہیر۔۔۔اپنی جودتِ طبع اور نیک نفسی کی وجہ سے،اس جاہلی معاشرے میں بھی منفرد اور معتبر مقام رکھتا تھا،صرف یہی نہیں،بلکہ اگرآپ اردو ادب کے حوالے سے دیکھنا چاہیں ، تو میر انیس کے گھرانے کی طرح،شاعری ان کے ہاں،موروثی صورت اختیار کیے ہوئے تھی،زُہیر کا باپ ربیعہ بن ریاح ، سوتیلہ باپ اوس بن حجر،ماموں بشامہ بن الغدیر،اس کی دونوں بہنیں سُلمی اور الخنسا اور اس کے دونوں بیٹے کعب اور بُجیر اور عقبہ بن کعب المضرب (پوتا) اور العوّام بن عُقبہ پڑپوتا ۔۔۔ سب شاعر تھے۔ زُہیر نے طویل عمر پائی،بعض روایات کے مطابق اَسّی اور بعض کے مطابق ایک سو بیس سال،وہ بعثت سے قبل اس دارِ فانی سے رخصت ہوگیا،جیسا کہ ابنِ قتیبہ نے لکھا کہ’’زُہَیرجاہلیت کے دورکا آدمی تھا،زمانہ اسلام اُس نے نہیں پایا‘‘تاریخ عرب میں زُہَیر کے حوالے سے یہ واقعہ مشہور ہے کہ اُس نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اُس کے پاس آیا اور اُسے اُٹھا کر آسمان کی طرف لے چلا۔قریب تھا کہ وہ آسمان کو چھوئے،اُس نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ زمین پر آن پڑا،دنیا سے جاتے ہوئے زُہیر نے یہ خواب اپنے بیٹے کعب سے بیان کیا اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میرے بعد کوئی آسمانی خبر رونما ہوگی،اگر ایسا ہو تو تم اُس کے ساتھ منسلک ہو جانا اور اس کی طرف بڑھنے میں جلدی کرنا۔دوسری روایت یہ ہے کہ زُہیر نے خواب دیکھا کہ ایک رسّی آسمان سے زمین کی طرف لٹکی ہوئی ہے،لوگ اُسے تھامنے کی طرف بڑھ رہے ہیں،مگر وہ جب بھی اُسے پکڑنا چاہتا ہے،وہ رَسّی سمٹ کر،اس کی دسترس سے دور چلی جاتی ہے۔اس کی تعبیر،اُس نے یہ کی کہ نبی آخر الزماں کاظہور ہونے کو ہے،جو اﷲ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہوں گے۔مگر اس کی عمر آپ ﷺ کی بعثت تک وفا نہ کرے گی،چنانچہ اُس نے اپنے بیٹوں کو تاکید کی کہ آپ ﷺ کے ظہور کے وقت،آپ ﷺ پر ایمان لانے میں دیر نہ کرنا ۔ کعب بن زُہَیر المزنی،بڑا قادر الکلام اور اپنے باپ زُہیر کی ادبی روایت کا امین ٹھہرا،اگرچہ اس کے بھائی بُجَیر اور ہم عصر الحطیئہ نے بھی،اس کے والد سے کسبِ شعر کیا، لیکن کعب کا اسلوب منفرد اور معتبر ہوا۔نبی اکرم ﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری کے بعد،اپنے والد کی وصیت کے مطابق دونوں بھائی مدینہ منورہ کے ارادے سے روانہ ہوئے،مدینہ کے نواح میں’’ابرق‘‘نامی بستی میں کعب رُک گئے اور بُجَیر کو حالات کی آگاہی کے لیے مدینہ بھیجا۔ بُجَیر دربارِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے،تو وہیں کے ہو کر رہ گئے،کعب کو یہ انداز پسند نہ آیا،بُجیر کو خطاب کرتے ہوئے،ایک قطعہ کہا جس میں شدید ردّعمل کا اظہار تھا اور شانِ رسالت مآب ﷺ میں بھی گستاخی کے مرتکب ہوگئے،جس پر دربار رسالت سے ’’خونِ ہدر‘‘یعنی قتل کا حکم صادر ہوا،فتح مکہ کے موقع پر جن منکرین کو قتل کیے جانے کے احکام جاری ہوئے،اس میں ،اس کی بھی توثیق ہوئی،سرزمین عرب تنگ ہوگئی، صحراؤں میں مارے مارے پھرتے رہے،قبائل حمایت سے دستکش اور اپنے خاندان نے بھی منہ پھیرلیا،اس بے بسی اور بے کسی نے مدینہ منورہ کا راستہ دیکھایا،کفر کا زنگ اُترا اور معافی کی خواستگاری کے لیے،ایک قصیدہ لکھا،رسول اللہ ﷺ غزوہ طائف سے لوٹے ہی تھے کہ فجر کی نماز کے وقت کعب حاضرِ خدمت ہوئے،اپنا مشہور قصیدہ "بانت سعاد"پیش کیا،جو دربارِ رسالت ﷺ میں باریاب ہوا اور چادر مبارک عطا ہوئی۔ 59اشعار سے آراستہ اس قصیدہ کو اسلامی عہد کی یادگار کے طور پر،جو شہرت عطا ہوئی،اس سے مزید اونچے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ قصیدے کا اسلوب جاہلی قصائد سے مستعار ہے۔جس کے ابتدائی 13اشعار تشبیب کے ہیں، جن میں اپنی محبوبہ" سعاد" کے فراق میں وصف محبوب کا خیالی پیکر،خواہشِ وصال اور فاصلوں کی دقتیں بیان ہوئی ہیں۔چودہویں شعر سے چونتیسویں تک،اُس اونٹنی کے اوصاف کا تذکرہ ہے جو محبوبہ"سعاد"تک لے جانے کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔ یہ بھی قدیم عربی شاعری کا منہج اور اُسی ماحول کا عکاس ہے۔پھر گریز کی منزل آئی اور اونٹنی کا رُخ سعاد کے کوچے کی بجائے،محبوب کائنات ﷺ کے آستاں کی طرف ۔۔۔اور شاعر اصل نفسِ مضمون کی طرف آگیا۔موت کی دھمکی سے وہ بے نیاز ہے کہ موت تو بہرحال آئے گی ہی ، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس حیات آفریں دربار سے ایسی دھمکی ملے، اس لیے وہ پکار اٹُھتا ہے: نَبِّئْتُ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ اَوْ عَدَنی وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ مَامُوْل دربار رسالت ﷺ کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ندامت اور عذر خواہی کے ساتھ عفو و کرم کا خواستگار ہوتے ہوئے ایک لافانی شعر پیش کیا جاتا ہے،جو التفات کا باعث ہوا : اِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ یُسْتَضَائُ بِہِ مُھَنَّدٌ مِنْ سُیُوْفِ اﷲ مَسْلُوْلُ