عمران خان پر جملہ اعضائے رئیسہ کا زور لگا کر تبرا کرنے والے احباب اس کی کامیابی کے ساتھ ہی اس کے خیر خواہ بن کر اسے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازنا شروع ہو گئے ہیں۔ان نومولود خیر خواہوں کے چہروں پر بظاہر مسکراہٹ ہے لیکن ان کے اندر نفرت کے جو تنور جل رہے ہیں اس کی حدت اتنی ہے کہ ان کی سلگتی مسکراہٹ سے میر تقی میر یاد آتے ہیں: دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے یہ احباب ہمدرد سی صورت بنا کر سوال اٹھاتے ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ شدت جذبات سے رو ہی دیں کہ عمران خان تو اعلی قدروں کا امین تھا اس نے یہ آزاد اراکین کو ساتھ کیوں ملا لیا۔ یہ نومولود خیر خواہ دردمیں ڈوبا نالہ بلند کرتے ہیں کہ ہائے ہائے کیا زوال آ گیا ہے، ایک وقت تھا کپتان نے ضمیر بیچنے پر اپنے بیس ایم پی اے پارٹی سے نکال پھینکے اور اب یہ حال ہے کہ جہانگیر ترین طیارے میں بھر بھر کر آزاد اراکین اسمبلی کو بنی گالہ لا رہا ہے۔عمران خان کی پرانی تقاریر سنائی جا رہی ہیں کہ دیکھیے صاحب عمران تو آزاد امیدواران کو بکائو مال سمجھتا تھا اب انہیں ساتھ ملا لیا۔ نومولود خیر خواہوں کی یہ آہ و بکا سن کر آ غا حشر یاد آتے ہیں: ’’ شور ایسا ہے قصابوں کی ہو جیسے بارات آئیے ! لاہور کی یہ بزمِ ماتم دیکھیے‘‘ قصابوں کی بارات کی شہہ بالوں کی وارفتگیاں اپنی جگہ ۔ حقائق مگر کچھ اور ہیں۔ عمران خان نے آزاد امیدواروں کے بارے میں بلا شبہ سخت رویہ اپنایا تھا۔عمران خان کے سامنے انتخابی اصلاحات کا ایک پورا خاکہ تھا۔ پورے پانچ سال عمران خان چیختا رہا کہ انتخابی اصلاحات کر لیجیے اور جواب میں اس پر طنز اور نفرت کے تیر پھینکے جاتے۔حکومت مسلم لیگ کے پاس تھی اور ان کی اپنے وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف خورشید شاہ سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب دونوں نے مل کر کیا تھا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں ایوانوں میں ان کے پاس اکثریت تھی۔یہ مل کر ایک قانون کیوں نہ بنا سکے کہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی یا یہ کہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت تو ہو گی مگر وہ جیت کر کسی جماعت میں شامل نہیں ہو سکیں گے بلکہ آزاد حیثیت میں اسمبلی میں بیٹھیں گے۔ایسا کوئی قانون ان تجربہ کاروں نے نہیں بنایا۔ کیا شرافت کی صحافت جواب دے گی کہ کیوں نہیں بنایا؟ اس وقت جو قانونی پوزیشن ہے وہ سمجھ لیجیے۔ قانون کے مطابق آزاد امیدوار جیتنے کے بعد کسی بھی پارٹی میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ اس کا اختیار ہے وہ چاہے تو اسمبلی میں آزاد حیثیت سے بیٹھے اور چاہے تو کسی جماعت کا حصہ بن جائے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخاب کے گزٹ آنے کے تین دن کے اندر اندرآزاد اراکین کسی بھی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔یعنی اب اگر اسے کسی جماعت کا حصہ بننا ہے تو اس وقت تین اگست تک اسے الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر اس سے آگاہ کرنا ہے کہ اسے فلاں جماعت کا رکن تصور سمجھا جائے۔ مخصوص نشستوں کا حتمی تعین اس کے بعد ہی ہو گا۔آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس جماعت کی نشستیں ہی نہیں مخصوص نشستیں بھی بڑھ جائیں گی۔ اب جب قانونی پوزیشن یہ ہے تو کچھ آزاد اراکین تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں تو اس پر اتنا ماتم کیسا؟ یہ چیز اگر بری تھی تو مسلم لیگ اور اس کا وفاقی وزیر برائے اپوزیشن مل کر اس کو ختم کر دیتے۔ ان کے پاس تو حکومت تھی اور وہ کر سکتے تھے۔ اور اگر یہ چیز کل تک بری نہ تھی تو آج بری کیسے ہو گئی؟ تماشا دیکھیے ، ابھی کل ہی رانا ثناء اللہ صاحب باقاعدہ ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز ہو کر فرما رہے تھے کہ ان کی جماعت آزاد اراکین کے ساتھ رابطے میں ہے اور آزاد اراکین کی اکثریت تحریک انصاف کی بجائے ن لیگ کو ووٹ دے گی۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر وہ ان اراکین کا نام نہیں بتا سکتے۔گویا جس کام پر تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ کام کرنے کی خود بھی پوری کوشش کی جا رہی ہے لیکن جب ناکامی نظر آرہی ہے تو سب با جماعت سر پیٹ رہے ہیں کہ انگور تو کھٹے ہیں۔آپ ذرا بیانیہ شریف کے کمالات دیکھیے آزاد اراکین اگر مسلم لیگ ن میں شامل ہو جائیں تو بطل حریت کہلائیں اور اگر تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں تو ضمیر فروش۔ آزاد اراکین کی ایک تاریخ رہی ہے۔ یہ بالعموم اس جماعت میں شامل ہوتے ہیں جو حکومت بناتی نظر آ تی ہے۔2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ میں ایک دو یا تین نہیں پورے 18 آزاد اراکین نے شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس وقت تو کسی نے شور نہیں مچایا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ حالانکہ میاں صاحب کے رفقاء کا دعوی تھا کہ جلاوطنی کے بعد اب میاں صاحب محض ایک سیاست دان نہیں بلکہ ایک مدبر بن چکے ہیں اور اب وہ اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی سیاست کرتے ہیں۔اس وقت تحریک انصاف کی ہوا چل رہی ہے۔ نظر آ رہا ہے حکومت اسی نے بنانی ہے۔ اس عالم میں آزاد اراکین کا انتخاب ، ظاہر ہے کہ ، تحریک انصاف ہی ہو سکتی ہے ن لیگ نہیں۔ یہ اعتراض بھی خبث باطن کے سوا کچھ نہیں کہ عمران نے اپنے بیس اراکین اسمبلی تو وفاداری بدلنے پر نکال دیے اور اب آزاد امیدواروں کو پارٹی میں شامل کر لیا۔ دونوں میں فرق ہے۔جنہیں عمران نے نکالا وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے، ان کا پی ٹی آئی کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دینا پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی تھی۔اب جو آزاد اراکین اسمبلی تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں یہ کسی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوئے۔ یہ آزاد حیثیت سے جیتے ہیں اور ان کا تحریک انصاف میں شامل ہونا کسی قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی نہیں بلکہ آئین کے عین مطابق ہے ۔ مکرر عرض ہے کہ یہ چیز اگر نا مناسب ہے تو آئین میں ترمیم کیوں نہ کی گئی اور اس وقت رانا ثناء اللہ بھی اسی کام میں کیوں مصروف ہیں؟ شرافت کی صحافت اگر جاننا چاہتی ہے ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے تو شاہد اورکزئی سے پوچھے وہ تفصیل سے بتائیں گے کہ جب وہ نواز شریف کے پولیٹیکل ایڈوائزر تھے تو نواز شریف نے اراکین پارلیمان کو خریدنے کے لیے ان کے ساتھ کتنے میں سودا کیا تھا۔ اور پھر کتنے پیسے دے کر نواز شریف باقی کی ادائیگی سے مکر گئے تھے۔کہانیاں اور بھی بہت سی ہیںمگر شاہد اورکزئی کی کہانی اس لیے اہم ہے کہ جب نواز شریف نے باقی کی رقم دینے سے انکار کر دیا کو شاہد اورکزئی سپریم کورٹ چلے گئے کہ میں نے نواز شریف کے کہنے پر اراکین پارلیمان کو خریدا اب یہ مجھے پوری ادائیگی نہیں کر رہے۔ عمران خان کا موقف بہت واضح ہے۔ وہ ان کاموں کے خلاف ہے۔ مگر اس نے یہ کھیل انہی قوانین کے تحت کھیلنا ہے جو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے بنا رکھے ہیں۔ پانچ سال وہ چیختا رہا انتخابی اصلاحات کر لیجیے کسی نے اس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔یہ سمجھتے رہے ہم ہی بڑے فنکار ہیں۔ عمران کو تو اناڑی اور ناتجربہ کار کہتے تھے۔ اب اس کے تجربے سے واسطہ پڑا ہے تو چیخیں ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔