خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاشانۂ اقدس کے حسن و جمال اور مسرتوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیاجب ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکے بطن سے ایک خوب رُو شہزادی نے جنم لیا،نام نامی ’زینب‘ رکھا گیا۔آپ خواتین اہل بیت علیہم السلام میں ایک نادر موتی کی طرح جگمگانے لگیں کیوں کہ آپ نے پوری کائنات میں سب سے بڑھ کر پاکیزہ اور عظمت والے گھر میں پرورش پائی ،آپ فطری طور پر نہایت ذہین تھیں ۔آپ نے اپنے والدین کریمین سے بُردباری ، حیا ، مروت ،پاکیزگی ، پاک دامنی ،حکمت ، ادب اور حسن اخلاق غرضیکہ تمام قسم کے عمدہ صفات حاصل کیں ۔ جب عالم شباب میں قدم رکھا تو آپ کی خالہ ہالہ بنت خویلد اپنی ہمشیرہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور انھوں نے اپنے بیٹے ابوالعاص بن ربیع القرشی کے لئے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا رشتہ مانگا۔ ابوالعاص بن ربیع قریش کے ان نوجوانوں میں سے تھے جو صداقت، امانت، جواں مردی، وسیع تجارت اور مال ودولت کے حوالے سے مشہور ومعروف تھے ، ہر کوئی انھیں رشک بھری نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ آپ کی شادی حضرت ابولعاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردی گئی اور اس موقع پر آپ کی والدہ ماجدہ نے اپنا پسندیدہ ہار آپ کوتحفے میں دیا۔ سیدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ پورے مکہ مکرمہ میں’ امین‘ کے لقب سے مشہور ومعروف تھے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل ومحاسن سے بہت زیادہ متأثر تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک جب چالیس برس کی ہوئی تو وحی کے نزول کا آغازہوا اور اللہ رب العزت نے آپ کو تمام لوگوں کی راہنمائی کے لئے تبلیغ کا حکم دیا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور رسالت کے فرائض سرانجام دینے کے لیے کمر بستہ ہوگئے ۔ یہ ظاہر بات ہے کہ سب سے پہلے وفادار بیوی اور آپ کی پاکیزہ اولاد نے آپ کی باتوں کو حق مانتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہاچونکہ اپنی تمام بہنوں سے عمر میں بڑی تھیں،انھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ ہجرت کرگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہزادی ،مکہ مکرمہ میں اپنے خاوند ابوالعاص کے گھر ہجرت کے بارے میں اپنے رب کے حکم کی منتظر تھیں۔ ان کا دل دھڑک رہا تھا یہاں تک کہ ان کے پاس یہ یقینی خبر پہنچ گئی کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے ہاں رہائش پذیر ہوگئے اور انصار کی قوم اپنی جانوں سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال رکھتے ہیں۔ 2ہجری رمضان کا چاند نکلا ہی تھا کہ مکہ مکرمہ کے مشرک مومنوں سے لڑنے کے لیے سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوئے تو ابوالعاص کو بھی اپنے ساتھ شریک کرلیا ،اُس وقت حالات کچھ ایسے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ابوالعاص کو قریش مکہ کی طرف سے شریک ہونا پڑا۔دونوں لشکر جب مقابل آئے تو گھمسان کا رَن پڑا اور ابوالعاص اسیر ہوگئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جان نثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ قیدی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ان کے قبضے میں تھے ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’تم قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا‘‘۔ ابوالعاص گرفتار ہوکر انصار کے قبضے میں تھے تو انھیں ہر طرح کی سہولت اور عزت میسر آئی ۔ ادھر سیدہ زینب سلام اللہ علیہا تک خبر پہنچی کہ ابوالعاص قیدی ہوگئے اور ان کے ساتھ مزید ستر مشرکین بھی گرفتارہیں ، اور اُن قیدیوں کے اہل خانہ فدیہ ادا کرکے اُنھیں چھڑانے کے لیے مدینہ منورہ روانگی کی تیاری کررہے آپ نے اپنے دیور عمرو بن ربیع کے ہاتھ کچھ سامان بھیجا ،اُس سامان میں آپ کا یمنی عقیق کا ہار بھی تو جو آپ کی والدہ ماجدہ نے بوقت شادی تحفہ میں دیا تھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ ِ اقدس میں یہ ہار پیش کیا گیا تو آپ نے دیکھ کر پہچان لیا ، اُس ہار نے خواتین عالم کی سردار سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی یاد دِلادی ، چشمان کرم سے آنسو آگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفقت بھرے انداز میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھاتو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے رضامندی کے بعد ابوالعاص کو آزاد کردیا ْ جب وہ گھر پہنچے تو انھوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہاکو مدینہ منورہ کی طرف روانہ کردیا۔ مدینہ منورہ میں آپ کو اپنے باپ کی شفقت اور بہنوں کی محبت میسر آئی۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا مدینہ منورہ میں تقریباً 6 سال رہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے خاوند ابوالعاص نے اسلام قبول کرلیا۔ آپ بہت خوش تھیں کہ ان کے خاوند ایمان کی طرف مائل ہوگئے ہیں سیدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ8 ہجری کو مہاجر کی حیثیت سے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے ۔ 8 ہجری کا آغاز ہوا تو آپ سلام اللہ علیہانے اس دنیا کو خیرباد کہا اور اللہ تعالیٰ کے پاس جنت میں جا بسیں۔ حضرت ام عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا غسل کفن پہنانے کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے تشریف لائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ان کو طاق مرتبہ غسل دینا اور آخر میں کافور استعمال کرنا اور جب تم اسے غسل دے دو تو مجھے بتانا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر عنایت فرمائی اور فرمایا کہ اسے پہنا دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود نمازِجنازہ پڑھائی اور جنت البقیع مدفن بنا۔آپ خاندان نبوت کی ایسی پاکیزہ کردار وسیرت کی حامل صاحبزادی تھیں جن کو حلم وحیا، جودوسخا اور ایثار ووفا کے زیور سے قدرت کاملہ نے آراستہ کر رکھا تھا۔ ایک لاڈلی بیٹی کے طور پر انھوں نے گلشن نبوت کی خوشبوئوں سے سیراب ہونے کے ساتھ ساتھ وفا شعار بیوی کے طور پر اپنے شوہر کے ساتھ اٹوٹ رشتے کی باریک ڈوریوں کو کمزور نہ ہونے دیا۔ ان کی خوبصورت شخصیت پر ہمیشہ سنہری الفاظ نذر کئے جاتے رہیں گے ۔