وہ ساٹھ کی دہائی میں چکوال کے ایک پسماندہ گاؤں سے لاہور آیا تھا، وہ اپنے گاؤں کا پہلا گریجویٹ کہلایا ، آزاد کوثری ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں ہانڈی بھی کئی کئی ہفتے نہیں پکتی ، میں پہلی بار اسے تب ملا جب میں اچھرہ میں این ڈی ہائی اسکول میں پڑھ رہا تھا، وہ اچھرے میں کرائے کے ایک کمرے میں مقیم تھا اور اس کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، کتابیں بھی بے ترتیبی سے زمین پر ہی بکھری پڑی ہوتی تھیں، ایک چھوٹی سی پرانی چارپائی اور ایک سرہانہ بھی اس کا سرمایہ تھا، سستے سگریٹ پیتا اور کثرت سے پیتا تھا،جس محلے میں بھی رہتا کوئی نہ کوئی اسے کھانے کو روٹی بھجوا دیتا ، اسے میں نے اچھرے میں درجنوں کرائے کے کمرے بدلتے دیکھا، وہ جب کسی کمرے کا دو چار مہینے کا کرایہ ادا نہ کر سکتا تو لا محالہ اسے وہاں سے شفٹ کرنا پڑتا، میں نے کئی سال اسے اسی حالت میں دیکھا، میں اس کی کتابوں میں دلچسپی رکھتا تھا، مگر میرے مطلب کی کتابیں اس کے کمرے میں ہوتی ہی نہیں تھیں، زیادہ تر کتابیں انگلش کی ہوتیں اور بائیں بازو کے نظریات کی ہوتیں، وہ روس نواز بھی تھا اور چین نواز بھی، مارکس ازم اور ماؤ ازم دونوں نظریات کو پڑھتا تھا ،جس محلے میں بھی رہتا وہاں کے نو عمر بچوں کو انقلاب کے سبق پڑھاتا، میں اس کا زبردست ناقد تھا، سوچتا کہ جو آدمی اپنی جیب سے دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا وہ اس ملک میں کیا انقلاب لا سکتا ہے، اس موضوع پر میری اس سے کئی بار لڑائی بھی ہوئی، جھڑپیں بھی ہوئیں ۔ 1970 ء میں جب میں صحافت کی دنیا میں وارد ہوا تو سب سے پہلے روزنامہ آزاد کو بچوں کے صفحہ کے انچارج کے طور پر جوائن کیا، آزاد کوثری مجھ سے پہلے ہی وہاں نیوز روم میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ 1973ء میں میں نے روزنامہ مساوات کراچی کو جوائن کیا اور ایک سال بعد لاہور تبادلہ کرا لیا، یہاں بھی مجھے سب سے پہلے آزاد کوثری ہی ملا، وہ یہاں بھی سب ایڈیٹر تھا اور معقول تنخواہ لے رہا تھا۔ یہاں لاہور میں ایک سینئر ساتھی چاچا رفیق تھے جو سینئر نیوز ایڈیٹر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے، پتہ نہیں کیوں؟ دفتر کا ہر چھوٹا بڑا ملازم ان سے پنگا لیا کرتا، چاچا جواب میں گالیاں دیتے تو سب ان گالیوں سے محظوظ ہوتے، آہستہ آہستہ میں بھی دوسروں کی طرح چاچا رفیق سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں میں شامل ہو گیا۔ معروف دانشور صفدر میر چاچا رفیق کے بھانجے تھے۔ ایک وقت آیا جب چاچا رفیق اخبار کے ایڈیٹر بن گئے، انہوں نے مجھے اپنے روم میں بلوا کر تنبیہ کی کہ چونکہ وہ اب ایڈیٹر بن گئے ہیں لہٰذا آج سے مذاق ختم۔ میں وعدہ کرکے ان کے کمرے سے واپس چلا آیا، اس ملاقات اور وعدے کو میں اگلے ہی دن بھول گیا مساوات کا آفس ان دنوں بھاٹی چوک کے قریب ہوا کرتا تھا، چوک میں ایک پان شاپ تھی ، میں ان دنوں پان کھانے کی لت میں مبتلا تھا، صبح آٹھ بجے ہی اس شاپ پر کھڑا ہوجاتا، آنے جانے والوں سے علیک سلیک ہوتی رہتی، دس بجے کے بعد چاچا رفیق وہاں سے گزرتے تھے اور میں ان کے ساتھ پنگا کرکے دوڑ لگا دیا کرتا تھا، چاچا جواب میں جو گالیاں نکالتے ، وہ بھاٹی کے سوا لاہور کے کسی اور دروازے کے لوگ نکال ہی نہیں سکتے…میں چاچا رفیق کی نصیحت کے اگلے ہی روز پھر اسی جگہ کھڑا تھا، چاچا اپنے وقت پر تھے اور میں تاک میں ، پھر وہی ہوا جو روزانہ کا معمول تھا، اس واقعہ کو گزرے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مجھے ایک شوکاز نوٹس ملا، شو کاز میں میرے کردہ نا کردہ گناہوں کی ایک طویل فہرست تھی ، اگر کچھ نہیں تھا تو وہ تھا چاچے والا آخری واقعہ… میرے خلاف یہ ایف آئی آر کسی ماہر کی بنائی ہوئی لگتی تھی ، میں کھوج لگاتا لگاتا آزاد کوثری تک پہنچ گیا۔ آزاد کوثری نے کسی عذر کے بغیر تسلیم کر لیا کہ یہ سب کچھ اس نے چاچا کے کہنے پر کیا ‘ میرے خلاف کوئی مزید کارروائی تو نہ ہوئی لیکن چاچا کی جان چھوٹ گئی، میرے مذاق سے،، اور آزاد کوثری سے میرے تعلق میں بھی کوئی فرق نہ آیا، نہ ہی دل میں کوئی گرہ بندھی ، آزاد کوثری ایک مدت تک مرحوم عبدللہ ملک کے گھر بھی جاتا رہا ، وہ عبدللہ ملک صاحب کے نام پر شائع ہونے والی کتابوں کوترتیب دیا کرتا تھا اور اس کام کا اس کو تھوڑا بہت معاوضہ بھی ملتا تھا،، وہ پاکستان پیپلزپارٹی والے سوشلسٹ شیخ رشید کا بھی بہت قریبی ساتھی تھا، بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے شیخ رشید نے اس سے ’’دہکان‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ بھی نکلوایا تھا ، دہکان ،کسان کو کہتے ہیں اور یہ رسالہ کسانوں کو باشعور بنانے کے لئے جاری کیا گیا تھا، جب بھٹو صاحب کا انقلاب آگیا تو شیخ رشید نے یہ کہہ کر یہ رسالہ بند کرا دیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ انیس سو ستتر کے مارشل لا کے بعد میری اپنی زندگی میں انقلاب در انقلاب آتے رہے، کوثری سے رابطے ٹوٹ چکے تھے، میں خود کوثری سے زیادہ نڈھال ہو چکا تھا ، آزادی جمہور ،کے لئے صحافیوں کی ملک گیر تحریک شروع ہوئی ، پوری قوم کو یرغمال بنا کر مظالم ڈھائے گئے ، مجھے سندھ پنجاب کی سات جیلیں کاٹنا پڑیں ، شاہی قلعہ اور لال قلعہ میں صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں،کوڑے کھانے کیلئے ٹکٹکی پر باندھا گیا، برے دن اور ظلم برداشت کرنیکی عادت پہلے سے ہی تھی اسی لئے سب برداشت کرتا چلا گیا۔ لاہور سے ایک بڑے اخبار کی اشاعت شروع ہوئی تو میں اور آزاد کوثری پھر کولیگ تھے۔آزاد کوثری کا ایک بھائی فوج میں تھا ، وہ شہید ہو گیا تو اس کے اکلوتے بیٹے ناصر کو کوثری اپنے پاس لے آیا ،فاقے ختم ہو چکے تھے، میں نیوز روم میں اور وہ لائبریری انچارج تھا،، میں نیوز روم میں اپنی مصروفیات بڑھاتا گیا ، اسی اخبار کے لئے لندن میں چیف نیوز ایڈیٹر کے طور پر بھی خدمات دیں، لاہور کے بغیر دل نہ لگا اور اگلے ہی سال واپس لوٹ آیا۔ میری لاہور واپسی کے بعد آزاد کوثری سے محبتیں اور بڑھ گئیں’’ ایک دن ملا تو پہلی بار اس کے چہرے پر سچی خوشی دیکھی ، کہنے لگا،،میرا رشتہ آیاہے، وہ لوگ انار کلی میں رہتے ہیں، مجھے دیکھ کر ہاں کر گئے ہیں ، انہوں نے مجھ سے پوچھا تمہارا کوئی بڑا ہے ؟ میں نے تمہارا نام لے لیا ، اب تم نے ہی سب سنبھالنا ہے‘‘میں نے جواب دیا۔ ہاں سب کچھ میں سنبھالوں گا‘میں نے کوثری کے سسرال والوں سے ملاقات کی ، شادی کی تاریخ طے کر لی گئی ، دلہن کو لانے کے لئے فیروز پور روڈ پر گلیکسی سینما کا فلیٹ کرائے پر لیاگیا ، اور پھر وہ دن آگیا، جب گھوڑی چڑھا آزاد کوثری، ہم بھابی کو بیاہ لائے ، ایک انتہائی اچھی عورت کوثری کی شریک حیات بن گئی ، اس نے ناصر کو بھی بیٹوں جیسا پیار دیا ، پھر آزاد کوثری ایک بیٹی کا باپ بن گیا ، اس کی زندگی گھر اور دفتر تک تو محدود ہو گئی لیکن اس نے پاک ٹی ہاؤس اور حلقہ ارباب ذوق سے رشتہ نہ توڑا، کچھ عرصے بعد کوثری اپنی بیوی کے انار کلی والے گھر کے ایک پورشن میں منتقل ہو گیا۔ اس گھر اور پاک ٹی ہاؤس کا فاصلہ ایک فرلانگ کا تھا ، کوثری کا انتقال اسی گھر میں ہوا ، ہم اس کا جنازہ لے کر پاک ٹی ہاؤس کے دروازے کے آگے سے گزرے تو دروازہ تو کھلا تھا مگر اس کے اندر اور باہر آزاد کوثری کو الوداع کہنے والا کوئی نہیں تھا۔ آزاد کوثری کی بیوہ اور بیٹی ابھی تک اسی انارکلی والے گھر میں رہ رہے ہیں، اس کا بھتیجا ناصر بیرون ملک چلا گیا تھا،کوثری مرنے سے پہلے اپنی بیٹی سدرہ کو میری بیٹی بنا گیا تھا، سدرہ باپ کی طرح ذہین ہے ،کسی اچھی ملازمت پر ہے، اللہ کرے کہ وہ اپنی ماں کا ہمیشہ بہت خیال رکھے۔