وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ’’ اقلیتوں کے حقوق اور سہولتوں کے حوالے سے پنجاب کو مثالی صوبہ بنا رہے ہیں اور پنجاب مینارٹی پیکیج اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے مثالی پروگرام ثابت ہوگا۔ یوحنا آباد کو 30 کروڑ روپے کی لاگت سے ماڈل علاقہ بنایا جائے گا ۔ اقلیتی ملازمین کا ڈیٹا مرتب کیا جائے گا ۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو مذہبی ایام پر سرکاری تعطیل دی جائے گی ۔ اقلیتی طلبہ کو اڑھائی کروڑ روپے کے تعلیمی سکالر شپ دیئے جائیں گے ۔ اقلیتی قیدیوں کو متعلقہ مذہبی کتاب پڑھنے پر قید میں رعایت دی جائیگی ۔ ‘‘ اقلیتوں سے متعلق وزیراعلیٰ کے خیالات قابلِ قدر ہیں ۔ لیکن وزیراعلیٰ کے بیان سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ اقلیتوں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو کہ ہونے چاہئیں ، اسی بناء پر وزیراعلیٰ کو یہ بات کہنے کی ضرورت پیش آئی ۔یہ حقیقت ہے کہ اقلیتوں سے متعلق وزیراعلیٰ کے خیالات قابلِ قدر ہیں مگر اصل ضرورت عمل درآمد کی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اقلیت کا ہر جگہ استحصال ہوتا ہے ۔ صنفی امتیاز بھی پوری دنیا میں پایا جاتا ہے ، کہیں کم کہیں زیادہ ۔ ہمسایہ ملک ہندوستان میں مسلم اقلیت کے ساتھ ظالمانہ سلوک ہو رہا ہے اور کشمیر میں تومسلم کشمیریوں کے ساتھ بربریت کی انتہا کر دی گئی ہے۔ لیکن ہمیں برائی کا جواب اچھائی سے دینا چاہئے۔ ریاست ماں ہوتی ہے اور ریاست میں رہنے والے تمام لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی رنگ ‘ نسل اور مذہب سے ہو ، ماں دھرتی کے بیٹے کہلاتے ہیں ۔ اقلیتوں سے حسن سلوک کا اہتمام صرف حکومت کو ہی نہیں بلکہ مذہبی جماعتوں سمیت سب کی ذمہ داری ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا پلان بی شروع ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں دھرنا رہا ۔ قطع نظر اس سے کہ یہ مارچ ہونا چاہئے یا نہیں لیکن ایک کمی جو خصوصی طور پر محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ آزادی مارچ میں اقلیتیں اور خواتین نظر نہیں آئیں ۔ انتخابات کے موقع پر خواتین سے ووٹ لیا جاتا ہے اور ان کو پولنگ اسٹیشنوں پر بھی بھیجا جاتا ہے تو اس طرح کے سیاسی عوامی اجتماعات میں نمائندگی کیوں نہ ہو؟ یہ ٹھیک ہے کہ آزادی مارچ میں سیاسی مطالبات کو فوکس کیا گیا اور مذہبی مطالبات سامنے نہیں آئے ۔ جس سے انتہا پسندی کا تاثر زائل ہوا ۔ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی سیاسی عمل میں شریک کیا جائے اور ان کو عملی طور پر احساس دلایا جائے کہ پاکستان ہم سب کا ہے ۔ اس سے ’’ تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں ‘‘ ، ’’ یہ تیرا پاکستان ہے ، یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ کا نعرہ درست ثابت ہونے کے ساتھ ایک خوبصورت ماحول سامنے آئے گا ۔ دنیا کا ہر مذہب دوسرے مذاہب کا احترام کرانا سکھاتاہے ۔پاکستان میں بھی اس طرح کی مثال قائم ہونی چاہئے ۔ سندھ میں ہم نے دیکھا کہ جمعیت العلمائے اسلام کے رہنما مولانا راشد سومرو ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نمرتا کی تعزیت کیلئے بھی گئے اور وہاں ایک مندر جسے مسمار کیا گیا تھا ، میں پہنچ کر ان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ عمل صرف سندھ تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اسے قومی عمل میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ 11 اگست1947 ء کا دن نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی دن اپنے تاریخی خطاب میں فرمایا تھا کہ بلا رنگ ، نسل و مذہب پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے حقوق مساوی ہونگے۔ قائد اعظم کے خطاب سے اقلیتوں کو بہت حوصلہ ملا تھا۔ 1973 ء کے آئین میں اگر کچھ دفعات پر اقلیتوں کو تحفظات ہیں ۔ ان تحفظات کو دور کیا جانا ضروری ہے کہ اگر پاکستان میں امتیازی قوانین ہونگے تو اس کا نقصان ہندوستان اور دیگر ملکوں میں رہنے والے مسلم اقلیتوں کو ہوگا کہ ایک لحاظ سے وہ بھی امتیازی قوانین بنائیں گے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ سٹیٹ ماں ہوتی ہے اور اس میں رہنے والے سب بیٹے تو ماں کو سب سے برابر پیار ہوتا ہے اور ماں کے بیٹے بھی اپنی ماں دھرتی کو مقدس جانتے ہیں ۔ گلستان کی خوبی اس کے مختلف پھولوں ‘ مختلف رنگوں اور مختلف خوشبوؤں سے ہوتی ہے ۔ پاکستان کو بھی اسی طرح کا گلدستہ ہونا چاہئے ۔ تبدیلی کے دعویدار برسر اقتدارآئے ہیں تو اس موقع پر یہ گزارش کرنا غلط نہ ہوگا کہ آئین میں اقلیتوں سے متعلق جو تضادات ہیں جیسا کہ آئین میں لکھا ہوا ہے پاکستان میں بسنے والے تمام افراد کے حقوق بلا رنگ ، نسل و مذہب برابر ہیں ، پھر ایک شق یہ بھی ڈال دی گئی کہ کوئی غیر مسلم پاکستان کے اہم عہدوں پر فرائض انجام نہیں دے سکتا ۔ یہ ایک طرح کا تضاد ہے کہ پہلے آپ نے آئین میں لکھا کہ سب کے برابر حقوق ہونگے پھر امتیاز پیدا کر دیا ۔ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس موقع پر ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کے تاریخی معاہدے کو مثال کے طور پر سامنے رکھنا چاہئے کہ بیت المقدس کی فتح کے بعد آپ نے عیسائیوں سے معاہدہ کیا ، معاہدے کی شقوں میں اقلیتوںکو ہر طرح کے تحفظ کے علاوہ ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی بھی گارنٹی دی گئی ۔ معاہدے میں آپ نے فرمایا کہ یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المومنین عمر نے ایلیاء کے لوگوں کو دی ۔ یہ امان ان کی جان و مال ، گرجا ، صلیب ، تندرست ، بیمار اور ان کے تمام مذاہب والوں کے لئے ہے ، نہ ان کے گرجا گھروں میں رہائش رکھی جائے گی نہ وہ ڈھائے جائیں گے ، نہ ہی انکے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا۔نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی ۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر کیا جائے گا اور نہ ہی ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا ۔ اہم موقع پر یہ حوالہ بھی غلط نہ ہوگا کہ 11 اگست 1947ء کو قائد اعظم نے اقلیتیوں کے مساویانہ حقوق کی بات کی ، انہوں نے اپنی کابینہ میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا ۔ قیام پاکستان کے دو سال بعد جوگندر ناتھ منڈل نے استعفیٰ دیدیا ۔ انہوں نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو استعفیٰ کی چٹھی میں لکھا کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں خصوصاً ہندؤں سے ناروا امتیازی سلوک ہو رہا ہے اور میں ان کے حقوق کا تحفظ نہ کر سکا ۔ لہٰذا مجھے اپنے عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ جوگندرناتھ منڈل کے حوالے سے دو باتیں توجہ طلب ہیں ، ایک یہ کہ قائد اعظم نے خود ایک غیر مسلم کو وزیر قانون بنایا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کو انتہا پسند سٹیٹ نہ بنانا چاہتے تھے ۔