مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں میرے لیے سب سے زیادہ پرکشش لفظ آزادی ہے۔ یہ لفظ ’’آزادی‘‘ مجھے زمانہ طالب علمی کی حسین وادیوں میں لے گیا جہاں مجھے اپنا پسندیدہ ناول Jane Eyerیاد آ گیا۔ اس ناول کی مصنفہ شارلٹ برونٹے نے آزادی کے بارے میں ایک دل میں اتر جانے والا جملہ لکھا ہے۔ میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ’’میں کوئی پرندہ نہیں ہوں جسے جال میں پھانسا جا سکتا ہو، میں ایک آزاد انسان ہوں جو اپنی آزاد مرضی کا مالک و مختار ہے‘‘ مولانا کس قسم کی آزادی چاہتے ہیں اس کی تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئیں۔ تا ہم ایک بات کی مجھے خوشی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے سینئر سیاستدانوں نے بالآخر بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے افہام و تفہیم سے آزادی مارچ اور اس کی اسلام آباد آمد کا راستہ ہموار کر دیا۔ وگرنہ اس مارچ کے اعلان کے بعد تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ دھرنا سیاست کی پیشوا پی ٹی آئی مکمل طور پر بیورو کریسی کے چنگل میں آچکی ہے اور بیورو کریسی نے انہیں کنٹینروں کی پکڑ دھکڑ اور خندقوں کی کھدائی پر لگا دیا۔ اس موقع پر کسی دل جلے نے مرزا اسد اللہ کے مشہور مصرعے میں تھوڑا سا تصرف کر کے سوشل میڈیا پر لگا دیا کہ منحصر’’خندق‘‘ پہ ہو جس کی امید نا امیدی اس کی دیکھا چاہئے فردوس عاشق اعوان سے لے کر کے پی کے شوکت یوسف زئی کی توپوں نے شعلے اگلنا شروع کر دیئے۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے تو جمہوریت و سیاست اور آئین و قانون کی تمام حدود پھلانگ کر کھلم کھلا دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ کوئی مارچ صوبہ خیبرپختونخوا سے قدم تو باہر نکال کر دکھائے۔ ان کی ان دھمکیوں کا تحریک انصاف کے حامی سیاست دانوں، اینکروں اور صحافیوں نے شدید نوٹس لیا اور انہیں باور کرایا کہ 2014ء میں جو دھرنا جناب عمران خان کے لیے جائز تھا وہ 2019ء میں جناب مولانا فضل الرحمن کے لیے ناجائز کیسے ہو گیا۔ تین روز قبل کراچی سے شروع ہونے والا یہ مارچ سکھر سے ہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہوا۔ شب رفتہ مارچ کے شرکاء نے اولیاء کی بستی اور موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے آبائی شہر ملتان میں قیام کیا۔ منگل کی رات تک آزادی مارچ ملتان سے داتا کی نگری لاہور پہنچ چکا ہو گا ۔ اگرچہ یہ مارچ ملتان روڈ پر اپنی پرانی حلیف جماعت، جماعت اسلامی کے منصورہ ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے گزرے گا۔ معلوم نہیں اہل منصورہ کااپنی پرانی حلیف جماعت کے ساتھ اظہار مروت و مؤدت کیا ہو گا یا نہیں۔ تا ہم اہل لاہور کی روایتی رواداری سے کام لیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری اور ان کے مارچ کے لیے یہ استقبالیہ جملہ ضرور کہیں گے! جی آیاں نوں گزشتہ تین روز سے مولانا کا مارچ مکمل طور پر پرامن ہے اور بقول پرویز خٹک ہم اپنے معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں لیکن وفاقی حکومت ساتھ ساتھ براہِ راست بھی اور پیمرا کے ذریعے بھی جمعیت علمائے اسلام کے قائدین کی آزادیٔ اظہار پر قدغنیں لگا رہی ہے۔ پہلے مفتی کفایت اللہ کو حراست میں لیا گیا۔ جہاں تک حافظ حمداللہ کا تعلق ہے وہ سابق سینیٹر اور سابق صوبائی وزیر ہیں۔ ان کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ پاکستانی شہریت نہیں رکھتے لہٰذا انہیں ٹیلی ویژن چینلز اپنے پروگراموں میں مدعو نہ کریں۔میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں وفاقی وزیر علی محمد خان کو جنہوں نے برملا ایک ٹیلی ویژن چینل پر کہا کہ حافظ حمد اللہ کی شہریت کی منسوخی اور ٹی وی چینلوں سے ان کی بے دخلی ناقابل فہم ہے۔ جواں ہمت وفاقی وزیر علی محمد خان جب پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان کے ہر حکمران کی یہ خواہش رہی ہے کہ اسے فری ہینڈ دیا اور اس پر تنقید نہ کی جائے۔ اس ضمن میں شاید ہی کوئی استثنا ہو۔ جنرل ایوب خان نے سیاستدانوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر کے ان کی زبان بندی کر دی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی تنقید کرنے والوں کے خلاف بڑے سخت اقدامات کیے تھے۔ آج تک پیپلزپارٹی کے زعماء جنرل صاحب کے زمانۂ اقتدار کی سختیوں اور بندشوں کی مذمت کرتے سنائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ برکلے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ذوالفقار علی بھٹونے عوامی مقبولیت میں مزید رنگ بھرنے کے لیے اپوزیشن پرپابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ یہی حال آکسفورڈ کے ڈگری یافتہ جناب عمران خان کا بھی ہے۔ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ سنجیاں ہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے اسلام آباد ہائی کورٹ نے حافظ صاحب کی شہریت کی منسوخی کے حکمنامے پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ یہ امر لائق تحسین ہے کہ اس نوٹیفکیشن کے بارے میں حکومت کے وزراء نے نہایت ناگواری کا اظہار کیا ہے۔ فواد چودھری نے اس پابندی کو غیر منطقی اور غیر ضروری قرار دیا ہے۔ شیریں مزاری نے سوال کیا ہے کہ تبصرہ کے لیے کون سی ڈگری چاہئے، اسد عمر نے اسے حیرت انگیز قرار دیا ہے اور خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت زئی نے بھی نوٹیفیکیشن کو ناپسند کیا اور بڑا دلچسپ سوال اٹھایا کہ میں عمران خان سے پوچھوں گا کہ انہیں اس طرح کا نوٹیفیکیشن جاری کروانے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ سادہ دل شوکت یوسف زئی کو یہ معلوم نہیں کہ ہر زمانے میں کچھ کاریگر قسم کے مقربین بھی ہوتے ہیں جو مزاجِ شاہاں کا اندازہ لگا کر اس کے مطابق مشورہ دیتے ہیں۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی مختلف صحافیانہ یونینز اور مالکان کی اکثر تنظیموں نے اس نوٹیفیکیشن کو مسترد کر دیا ہے۔ ہماری دعا کہ مولانا کا آزادی مارچ بخیرو خوبی اختتام کو پہنچے اور باہمی تصفیے تک حکومت اور اپوزیشن کا مذاکراتی سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔