معزز قارئین!۔ مجھے نہیں معلوم کہ امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کی قیادت میں( ضرب اُلمِثل کے مطابق) آزادیؔ مارچ کا اونٹؔ کس کروٹ بیٹھے گا؟۔ وضعداری کے تقاضے کے تحت فضل اُلرحمن صاحب نے اپنی جمعیت کے دوسرے لیڈروں عبداُلغفور حیدری، سینیٹر طلحہ محمود اور امجد خان صاحبان کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ ( ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات میں فضل اُلرحمن صاحب نے اپنی یہ شرط دُہرائی ہے کہ ’’ (عمران خان کی ) حکومت پہلے مستعفی ہو ، ہم پھر مذاکرات کریں گے!‘‘۔ 20 اکتوبر کے قومی اخبارات میں عبداُلغفور حیدری صاحب کا ایک بیان شائع ہُوا۔ موصوف نے کہا کہ ’’ چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی ، آزادی مارچ پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن، اُن کو بتا دِیا گیا ہے کہ ’’وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے بعد ہی مذاکرات ہوں گے اور ہماری طرف سے حتمی فیصلہ ’’ مولانا فضل اُلرحمن ہی کریں گے‘‘۔ معزز قارئین!۔ فضل اُلرحمن اور عبداُلغفور حیدری صاحبان پرانے ساتھی ہیں ۔ حوالے کے لئے دیکھئے 3 جولائی 2007ء کو صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے حکم سے اسلام آباد کی لال ؔمسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہؔ میں ’’پناہ گزین دہشت گردوں کے خلاف ‘‘ پاک فوج کا "Operation Sunrise" ہُوا یوں کہ ’’ 6 اپریل 2007ء کو اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب ( سرکاری ملازم) مولانا عبداُلعزیز نے ’’ امیر اُلمومنین‘‘ کا لقب اختیار کر کے اور اپنے چھوٹے بھائی لال مسجد کے نائب خطیب ( سرکاری ملازم) عبداُلرشید غازی کو ’’نائب امیر اُلمومنین‘‘ مقرر کر کے پاکستان میں (اپنی مرضی کی) ’’شریعت ‘‘ نافذ کرتے ہُوئے وفاقی حکومت کو "Warning" دِی تھی کہ’’ اگر اُس نے نفاذِ شریعت کی راہ میں رکاوٹ ڈالی تو اُس کے جواب میں ’’فدائی حملے‘‘ (یعنی۔ دہشت گردوں کے حملے ) ہوں گے ‘‘۔ 12 اپریل 2007ء کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کا یہ بیان قومی اخبارات کی زینت بنا تھا کہ ’’ مولانا عبداُلعزیز اور عبداُلرشید غازی سے میرے کئی بار مذاکرات ہُوئے ۔ اُن کا اصرار ہے کہ ’’ صدر پرویز مشرف خود سرکاری طور پر نفاذِ شریعت کا اعلان کریں !‘‘۔ 3 جولائی 2007ء کو پاک فوج کے "Operation Sunrise" ۔ کے نتیجے میں لال ؔمسجد اور جامعہ حفصہ ؔمیں پناہ گزین 103 مسلح دہشت گرد ہلاک اور پاک فوج کے 11 افسران اور جوان بھی شہید ہُوئے۔ 12 جولائی 2007ء کو ( اُن دِنوں فعال ) ’’ متحدہ مجلس عمل‘‘ کے صدر قاضی حسین احمد ، سیکرٹری جنرل ، امیر جمعیت عُلماء اسلام ( ف) فضل اُلرحمن صاحب اور ’’ جے ۔ یو ۔ آئی۔ ایف ‘‘ کے سیکرٹری جنرل عبداُلغفور حیدری صاحب نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات ؔکی حفاظتؔ کرتے ہُوئے ،مارے جانے والے ، پاک فوج ؔکے افسروں اور جوانوں کو شہید ؔنہیں کہا جاسکتا‘‘۔ معزز قارئین!۔ قاضی حسین احمد تو مرحوم ہوچکے ہیں لیکن، حیرت ہے کہ ’’ صدر پرویز مشرف ، کے دور تک اور بعد ازاں ، صدر آصف زرداری اور وزرائے اعظم میاں نواز شریف ، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کی ’’سیاسی اور عسکری قیادتوں ‘‘ کو پاک فوج کے شُہداء کی توہین کرنے والوں ، فضل اُلرحمن اور عبداُلغفور حیدری صاحبان کے خلاف کسی قسم کی کوئی بھی کارروائی کرنے کی فرصت کیوں نہیں ملی؟‘‘۔ اُستاد شاعر ناظم پاؔنی پتی نے کہا تھا کہ … واعظا! توبہ کی جلدی کیا ہے؟ یہ بھی کرلیں گے ، جو فرصت ہوگی ! ’’انصارِ اُلاسلام؟‘‘ گذشتہ دِنوں جمعیت عُلماء اسلام ( ف) کی ذیلی تنظیم ’’ملیشیا فورس، انصار اُلاسلام ‘‘ کے باوردی کارکنوں نے خاردار تاروں سے لیس لاٹھیاں اُٹھا کر ( آزادی مارچ کی "Rehearsal"کرتے ہُوئے ) پشاور میں مارچ کِیا تھا ، جس پر وفاقی حکومت نے اُسے خلاف قانون قرار دے کر اُس پر پابندی لگا دِی ہے ۔ عربی زبان کے لفظ ’’ انصار‘‘ کے لغوی معنی ہیں ۔ ’’ مدگار لوگ‘‘ ۔ مکّہ کے مسلمان جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی پیروی کرتے ہُوئے مدینہ میں آباد ہُوئے تو، اہِل مدینہ اُن کے ’’ انصار‘‘ ( مددگار ) بن گئے اور اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی ہدایت پر مہاجرین مکّہ سے ’’ مؤاخات‘‘ (بھائی چارا) قائم کرلِیا۔ انصارِ مدینہ نے اپنی آدھی جائیداد اور دولت مہاجرین مکّہ کو بطور تحفہ دے دِی تھی۔ معزز قارئین!۔ سوال یہ ہے کہ ’’ فضل اُلرحمن صاحب کے زیر سایہ سرگرم عمل ’’ انصار اُلاسلام‘‘ کے کن عہدیداروں اور کارکنوں نے ،پاکستان میں غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد عوام کے (جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ) کِس طرح اور کیسے مدد گار ہونے کا ثبوت دِیا ؟۔ اُستاد شاعر ’’ پہلوان سخن‘‘ حضرت امام بخش ناسخؔ سیفی نے کہا تھا … فلک نے ،خاک میں لے کر ،ملادِیا! اب چاہیے ہے مجھ کو ،مدد بُو تراب ؑکی! ابُو ترابؔ یا بُو تراب ؔ۔’’ باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا صفاتی نام ہے ۔ ایک دِن حضرت علی مرتضیٰ ؑمسجد نبوی میں فرشِ زمین پر سو رہے تھے اور آپؑ کا جسم مبارک خاک میں آلودہ ہوگیا تھا، اتنے میں رسالت مآبؐ تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’ اے ابُو ترابؑ! (یعنی ۔مٹی میں بھرے ہُوئے جسم والے) اب اُٹھ بیٹھ! ۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’ مجھے بُو ترابؑ سے نسبت ہے، مَیں اُن کے مسلک پر چلنے والا ، اُن کا غُلام اور پیر اور پیرو ہُوں۔ پھر کہا کہ … یہ گنہگار، بُو ترابی ہے! ’’قائداعظمؒ زندہ بادکا نعرہ؟‘‘ 18 اکتوبر کو لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر آزادیؔ مارچ کے حوالے سے فضل اُلرحمن صاحب نے ملاقات کی اُن کے ساتھ عبداُلغفور حیدری اور امجد خان صاحبان بھی تھے اور میاں شہباز شریف کے ساتھ ، احسن اقبال، امیر مقام، حنیف عباسی ، مریم اورنگزیب ، ملک پرویز اور خرم دستگیر صاحبان ۔ اُس ملاقات کے بارے میں بہت سی خبریں شائع ہُوئی ہیں لیکن میاں شہباز شریف کی یہ بات قابل ستائش ہے کہ جب اُنہوں نے کہا کہ ’’ ہم 31 اکتوبر کو اسلام آباد کے آزادی ؔمارچ میں ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کہیں گے!‘‘۔ بہت اچھی بات ہے لیکن، اے مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے قائداعظم کی کرسی پر بیٹھنے والے ’’ لیڈر‘‘ کیا آپ اور آپ کی مسلم لیگ کے قائدین اور کارکنان آزادی مارچ میں ’’قائداعظمؒ زندہ باد‘‘ کا نعرہ بھی لگائیں گے؟۔ ’’کانگریسی مولویت کی باقیات؟‘‘ معزز قارئین!۔ انگریز اور ہندوئوں کے ساتھ ساتھ ، ہندوئوں کے باپو ، ’’بنیا قوم ‘‘کے شری موہن داس کرم چند گاندھیؔ کے چرنوں میں بیٹھ کر ، قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والوں میں ’’ جمعیت عُلمائے ہند‘‘ کے ایک گروپ کے قائدین بھی شامل تھے ، جنہیں کانگریسی مولوی کہا جاتا تھا ۔ فضل اُلرحمن صاحب نے کبھی بھی قائداعظمؒ کی عزّت نہیں کی۔ 1993ء میں روزنامہ (جنگ) کے ’’میگزین ایڈیشن ‘‘میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں فضل اُلرحمن صاحب نے کہا تھا کہ ’’ محمد علی جناحؒ کوئی پیغمبر نہیں تھے کہ اُن پر تنقید نہیں کی جاسکتی‘‘۔ اِس سے پہلے فضل اُلرحمن صاحب کے والد مفتی محمود مرحوم کا یہ بیان "On Reord" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ اب رہا ’’ نواسۂ بھٹو‘‘ بلاول بھٹو زرداری ۔ اُن کے دادا ۔ حاکم علی زرداری کے انٹرویو کی ایک "Video Film" دسمبر 2018ء میں منظر عام پر آئی تھی ، جس میں اُنہوں نے قائداعظمؒ اور اُن کے والد محترم جناب جناح پونجا کے بارے میں ہرزہ سرائی کی تھی۔ 4 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار فضل اُلرحمن صاحب تھے ؟۔ سوال یہ ہے کہ ’’ اگر آزادی مارچ ہُوا تو، کیا وہاں فضل اُلرحمن صاحب کی ’’ جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ آصف علی زرداری صاحب کی ’’ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) اور میاں شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکنان ’’ قائداعظمؒ زندہ باد ‘‘ کا نعرہ لگانے کی زحمت گوارا کریں گے ؟۔