منیر نیازی نے بھی کہا تھا کہ ’’ہر حرف دوجے حرف دا پردا میتھوںقیاس نہ ہویا۔ساری عمر میں حرف لکھے پر حرف شناس نہ ہویا‘‘ تبھی تو کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔ اچانک مجھے انجم رومانی کا ایک شعر یاد آ گیا دلچسپ ہے: پہلے تول وحید قریشی پھر بھی نہ بول وحید قریشی یہ تو خیر ایک دوستانہ قسم کی طنز تھی ویسے واقعتاً بعض لوگوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے کہ وہ بولتے ہیں تو مردے کے مماثل قرار پاتے ہیں۔ ویسے بولنا اچھی بات ہے کہ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ بولو تاکہ پہچانے جائو ۔مطلب یہ کہ مجھے کچھ بات کرنی ہے۔ ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر کے جھگڑے کے حوالے سے، میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ یہ لڑائی اس وقت ٹاپ ٹرینڈ ہے اور سب ریٹنگ کے لئے اس میں کود پڑے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اخلاق باختہ ہے جو کچھ ہوا یہ اچھا نہیں ہوا اور یہ اس سے بھی برا ہوا کہ یہ سب کچھ ہونے دیا گیا اور اب معذرتیں اور معافیاں باقی رہ گئی ہیں جو زیادہ اذیت ناک عمل ہے: سب لوگ مطمئن ہیں فقط اتنی بات پر منصف سے یہ مانتا ہے وہ حق پر نہیں رہا دیکھیے‘ سب سے پہلے اساس کو دیکھیے کہ خشت اول اگر ٹیڑھی رکھی جائے تو بقول سعدی وہ دیوار آسمان تک ٹیڑھی ہی بنے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ فتنہ سامانی کس نے کی‘شہد کی انگلی کس نے دیوار پر لگائی۔ یہ سوچ اور فکر کے نظریہ کی غماضی کرتی ہے کہ میرا جسم میری مرضی‘ ہر معاشرے کا ایک سیٹ اپ ہوتا ہے اس کی اپنی اقدار اور روایات ہوتی ہیں کوئی اس کو نہ مانے تو یہ اس کا حق ہے‘ رد کر دے مگر جب وہ ان کے درپے ہو گا تو ردعمل فطری ہے۔ ورائٹی تو خیر ہر جگہ ہوتی ہے۔ کچھ آزاد خیال عورتیں آزادی نسواں کا بہانہ بنا کر اپنی خواہشات کی تجسیم کے لئے نکلیں۔ یہ بھی ان کا حق تھا۔ ان کی بدن بولی‘ نعرے اور گفتگو سے سب کچھ عیاں تھا۔ بلکہ انہوں نے پوز تک بنائے اور کیپشن تک لگائے کہ کچھ چھپا نہ رہے۔ سب کچھ عیاں ہونے پر باحجاب معاشرے سے ردعمل آیا تو ان کے حواری معذرت خواہانہ انداز میں کچھ محتاط ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا مطلب وہ نہیں جو لیا جا رہا ہے۔ چلیے وہ یہاں تک تو مانے یہاں تک تو آئے‘‘ تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی 8مارچ کو ریلی نکالنے والی خواتین کے ایجنڈے سے بے خبر نہیں کہ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ یہ معاشرے کی ایک اجتماعی فیبرک کو تار تار کرنے کی ایک مغربی سازش ہے سوال تو یہ ہے کہ یہ این جی اوز کے پے رول پر کچھ آزاد رو خواتین ایک اسلامی خاندانی نظام کو تہس نہس کرنے کے چکر میں ہیں اور شخصی آزادیوں کے نام پر سب کچھ غلط ملط کر دینا چاہتی ہیں یا یوں کہیں کہ معاشرے کے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دینا چاہتی ہیں ان کو کیسے روکا جائے۔ اس کا سیدھا حل تو یہی ہے کہ خود کو مضبوط کیا جائے مگر ہم کر اس کے الٹ رہے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال ایک چھوٹے بچے کی ہے جو انگریزی سکول میں تعلیم پا رہا ہے یہ بالکل حقیقت لکھ رہا ہوں وہ چھوٹا بچہ کسی بات پر ماں کو کہہ رہا تھاYou cannot controle my selfکچھ تو اس پر واہ وا ہ کریں گے کہ بچے میں کیا اعتماد ہے۔ وہ بات جو اکبر الہ آبادی نے کہی تھی۔ ہم اس تعلیم کو بھی قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جس کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں۔ غلط یہ ہوا کہ خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد کی لڑائی میں اصل مدعا غائب ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیل الرحمن قمر کو ماروی کے خلاف یہ زبان استعمال نہیں کرنا چاہیے تھی کہ تمہارے جسم میں ہے کیا۔ میں اس پر تھوکتا بھی نہیں وغیرہ وغیرہ یہ لب و لہجہ اور مغلظات کسی بھی صورت میں ان کے شایان شان نہیں یہ بھی درست کہ ان کے انداز میں تکبر اور نخوت بھی جھلکتی ہے۔یہ سب غلط نگران کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ معصومیت سے ٹریپ ہو گئے اور ماروی کا مقصد پورا ہو گیا۔ ماروی سرمد اس سے پیشتر اوریا مقبول جان اور حمد اللہ صاحب سے آویزش کر چکی ہیں۔ وہ شوبز کی زبان میں چیزہ لیتی ہیں کہ کوئی بھڑکے اور پھٹے۔ ماروی کامقصد ڈرامہ لگانا اور اپنے ایجنڈا کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ وہ مادر پدر آزادی کی علمبردار ہے۔ وہ رضا مندی سے سازی حدود پار کرنے کو غلط نہیں سمجھتی۔ کچھ لوگ یونہی اپنے آپ کو زیادہ دانشور ثابت کرنے کے لئے خلیل الرحمن قمر پر چڑھ دوڑے ہیں میں تو عامر لیاقت پہ حیران ہوں کہ اس نے خلیل الرحمن قمر کے خلاف بہت ہی گھٹیاں زبان استعمال کی شاید اس حسد میں کہ اسے شہرت کیوں مل گئی۔ خود عامر لیاقت کے کلپ یوٹیوب پر موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سب کچھ فکس تھا۔جان بوجھ کر لڑائی کروائی گئی اور پھر چل سو چل اس معاملے کو ٹھنڈے دل سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا عورت کے حقوق کے تحفظ کے لئے یہ دونوں ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر موزوں اشخاص ہیں۔ سوشل سطح پر بھی اچھا برا یقینا ہے مگر اصطلاحی معنوں میں جب دین کی بات آئے گی تو دین دار ہی کی بات صائب ہو گی کہ جو اس کا علم رکھتا ہو۔ گمراہی کی بات یقینا بہت پرکشش ہوتی ہے کہ یہ لوگ شیطان کے ہمراب ہوتے ہیں۔آپ مانیں یا نہ مانیں‘ میرا دل یہ کہتا ہے کہ ان خواتین کو، کہ جو ایک آزادی کے نام پر پراسرار مشن لے کر نکلی ہیں۔ان کو روکنے کی بجائے برابر میں یا مقابل اپنا موقف لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ عورتوں کا جواب پڑھی لکھی اور اسلام کا علم رکھنے والی عورتیں دیں۔ اس حوالے سے میں جماعت اسلامی کو داد دوں گا کہ وہ عورتوں کو اسلام کا شعور دے کر تحریک میں ساتھ لاتے ہیں امسال 8مارچ کی ریلی کے مقابل جماعت اسلامی کی عورتیں’’تکریم نسواں واک کر رہی ہیں۔یہی مثبت عمل ہے۔ مجھے نوائے وقت کے حمید نظامی ہال میں قاضی حسین احمد کا خطاب یاد آ رہا ہے کہ جب وہ امریکہ کے دورے سے واپس آئے تھے انہوں نے امریکی تھنک ٹینک کو بتایا تھا کہ ان کے پاس عورت کا کوئی رول ماڈل اسلامی رول ماڈل حضرت فاطمتہ الزہرہؓ جیسا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسا ہی کام روزنامہ 92نیوز کر رہا ہے کہ وہ اہل بیت اور صحابہؓ کی سیرت پیش کرتا رہتا ہے بے روی اور مادہ پرستی کے اس دور میں کہ جب اہل مغرب ہمیں اپنے رنگ میں رنگ دینا چاہتے ہیں۔ہمارے لئے اپنی شناخت اور پہچان بچانا ازحد ضروری ہے۔ اس حقیقت سے آپ بھی آگاہ ہیں۔ ماروی سرمد کا جواب وہ نہیں جو خلیل الرحمن قمر نے دیابلکہ اس کا جواب انتہائی مہذب اور شائستہ انداز میں دلیل اور خیر کے ساتھ دینا ہو گا اور عملی انداز میں۔ عورت کے حقوق اسلام سے زیادہ کہاں ہونگے!عورت کو اس وقت وراثت دی جب وہ خود وراثت میں تقسیم ہو جایا کرتی تھی۔ بس اسلام سی آگاہی اور عمل ضروری ہے۔