کوئی قوم تب طاقتور ہوتی ہے جب وہ وقت ضرورت منتشر ہجوم نہیں ،بلکہ مربوط قوت کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ ایک قوم نا قابل شکست قوت جب بنتی ہے جب اسے اپنے کردار کا ادراک ہو۔ہرمیدان میںکامیابی کی ضمانت کیلئے ہمارے اساتذہ کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا۔ وقت کی ضرورت کو سمجھنا ہو گا ، نہیں تو اس انقلابی ، آزادی کی تحریک میں اسی طرح خامیاں موجود رہیں گی جو ہمیں اس کے اندر واضح طو ر پر نظر آرہی ہیں۔ نسل انسانی کی بہترین پرورش اور ذہن سازی کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ! یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ کسی المیے سے کم نہیںکہ عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کل استاد بننا کوئی نہیں چاہتا۔ جب ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ساری کوششیں اکارت ہوجاتی ہیں تو لوگ تنگ کر، اور اپنے خوابوں کے کیریئر کو چکنا چور ہو تے دیکھ کر مجبورا ٹیچر بن جاتے ہیں۔ اس طرح استاد بننے والے جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اپنا کام کرتے ہیں ،اتنے ہی منفی خصائل طالب علمو ں میں در آ تے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے ہاں پرائمری سطح پر بالکل غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معصوم ذہنوں کی باگ ڈور سونپ دی جاتی ہے۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے پہلے سات سال ہی ذہن کی شعوری اورغیر شعوری نشوونما میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دے۔ غلامی کی ذلت سے انہیں معلومات بہم پہنچائی جائیں غلامی کی ذلت پر بہت زیادہ مواد موجود ہے ، چھوٹے بچوں کو کہانیاں سننے کاشوق بھی بہت ہوتا ہے، استاد موقع کی مناسبت سے غلامی کی ذلت پر مشتمل چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنا کر ان کی ذہن سازی کے لئے سنا سکتے ہیں۔ آزادی کی تحریکوں میں معلم کے کردار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے تحریک آزادی کشمیر جتنا طول پکڑتی چلی جائے گی اتنا ہی اساتذہ کرام کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔کشمیر کے اساتذہ کرام کشمیر کی تحریک آزادی کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے کیسہ ہائے عظمت وعلم میںغلامی کی ذلت اور آزادی کی عظمت کے اسباق کو شامل رکھیں تاکہ قوم کو امتحان پڑا تو گنگ اور ششدردہ جانے سے بچ جائے۔ ہماری طویل جدوجہد آزادی کا تقاضا ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نسل ، اگر وہ بھارت کی قتل گاہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئی تو،بہادر سپاہی بننے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر، پروفیسر اور انجینئر بھی بنانا ہے ۔ ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ جمنا کے کنارے جب شاہ جہاں تاج محل تعمیر کر رہا تھا تو آکسفورڈ یونیورسٹی میں مستقبل کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی ۔ ہمیں تاجرانہ مزاج کے اعلیٰ الرغم تختہ خاک پر اپنی آزادی کا ایسا عمل تعمیر کرنا ہے کہ دشمن جسے دیکھ کر کف افسوس ملتا رہے ۔ازمنہ رفتہ سے لے کر آج کے اس ترقی یافتہ دور تک استاد کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے ۔ جدید دوراورسائنیسی ترقی کی بنیاد بھی اسی مناسبت سے درس وتدریس پر استوارہے ۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ پڑھی لکھی قوموں نے عروج کی منازل طے کرلی ہیں۔ بلاشبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ساری ترقی کے پیچھے اساتذہ کا بڑا اہم کردار اورعمل دخل رہا ہے ۔اسی اہمیت کے پیش نظر آنے والی نسل کی پرورش کے لیے خالصتاً اساتذہ کے کلیدی کردار کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے انکارنہیںکہ کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ بلاشبہ وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو زندگی میں اچھے استاد میسر آتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب شخص تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہوتا ہے ۔ زندگی بہترین کتاب اور زمانہ بہترین استاد ہوتا ہے۔زمانے میں انسان آخری سانس تک سیکھتا ہی رہتا ہے۔ اسی فلسفے اوراسی پس منظر کے تحت استاد وہی کہلاتاہے جو شاگردوں کی شخصیت سازی میں اپنا حصہ ڈالے۔ ان کی فکری تشکیل اور کردار سازی میں اہم کردار سرانجام دے۔ جو استاد صرف وقت گزارنے کیلئے کلاس میںاونگھتا رہے اور رسماً لیکچر دے کر چلا جائے یا پھر اپنی انرجی کو ٹیوشنیں پڑھانے کے لئے بچا کر رکھ کر پیسے کمانے کی مشین بن جائے وہ صحیح معنوں میں استاد کہلانے کا حقدارنہیں۔ بنیادی طور پر استاد اور تعلیم کا شعبہ ایثار کیش پیشہ ہے۔ یہ ایک مقدس پیشہ ہے اس لئے اس شعبے میں صرف ان لوگوں کو آنا چاہئے جن میں بے لوث خدمت کا اور ایثار و قربانی کا جذبہ موجود ہو۔ جس استادنے اپنے شاگرد پر انمٹ نقوش چھوڑے،نئی منزلوں کی طرف آگے بڑھنے سے قبل اس کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا، اس میں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جذبہ پیدا کیا، اوراسے نئی منزلوں سے آشناکیا،اپنی پاکیزہ فکر،صالح کردار اور گہرے مطالعے سے شاگردوں کے ذہن پر خوش گوارنقوش مرتب کئے! اس کی ذہنی و فکری تشکیل میں کردار سرانجام دیا اوراسے معرکے سرکرنے کے قابل بنایا۔ قابل،لائق اور ذہین و فطین شاگردوں کی سوچ و فکر اور شخصیت پرایسے استادکی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ غور وفکر کے چراغ جلاکر اپنی شخصیت کا ایکسرے کریں اور اپنے باطن میں گھس جائیں تو آپ کو اپنی شخصیت کے سنوارنے میں کئی اپنے استادوں کے ہی ہاتھ نظر آئیں۔ اچھے طالب علم کی بہت سی عادات، زندگی کے رویئے، بول چال اور روز مرہ کی زبان کے الفاظ و محاورے ایسے ہی استاد سے ورثے میںملتے ہیں۔اسی لئے توکہاجاتاہے کہ استادمعمارقوم ہوتاہے اور قوموں کی تعمیر میں وہ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اسلامی تعلیمات میں اساتذہ کی تکریم کا حکم جا بجا ملتا ہے ۔ یہاں تک کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے معلم بنا کر معبوث کیاگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بحیثیت معلم دنیا کے لیے انمول کردار تھا۔دیگر معاشروں اور مذاہب کے مقابلے میں اگر اسلام میں استاد کے مقام کے بارے میں ذکر کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اساتذہ کی تکریم کا اس قدر قائل ہے کہ وہ انہیں روحانی باپ کا درجہ دیتا ہے ۔ استاد شاگرد کی روحانی اور اخلاقی تربیت کر کے اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا تا ہے۔اسی پس منظرکے تحت مسلمان کئی صدیوں تک علم و سائنس کے استاد رہے ہیں اور دوسری قوموں نے ان سے استفادہ کیا۔اساتذہ علم کے حصول کا براہ راست ذریعہ ہیں، اس لیے ان کے احترام کا حکم بھی دیا گیا ہے۔