ایک تماشہ ہے جو شیطان نے اپنے حواریوں کو سجھا کر، سمجھا کر، پیٹھ ٹھونک کر برپا کروا دیا ہے اور بڑی خاموش آگ بھر دی ہے۔ مشرکین کے اندھے دماغوں میں اور فساد کی انجانی لہر اتار دی ہے کافروں کے خون میں۔ اور رہے منافق تو وہ بے چارے کبھی ڈرتے ہیں اور کبھی آنکھیں کھولتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ منافق ہر جگہ اور ہر وقت اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ملت پاکستان، ملت اسلامیہ کی دفاعی اساس ہے۔ اس کی بنیاد اول وآخر لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ) ہے۔ اس کی جڑوں میں شہداء حق پرست اور عفت مآب معصوم کردار خواتین اور نوری وجود نو نہالان قوم کا وہ خون ہے جو ہر مرتبہ معرکہ مومنین و مشرکین میں اپنی قوت کا اظہار کرتا ہے۔ سب نے محسوس کیا کہ غازیان صف شکن اپنی قوم کی دعائوں کی چھائوں میں اور جذبات کے حدت زا ماحول باطل کی کلائی مروڑ کر سرخرو ہو گئے۔ ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔ کسی بھی فرد کی غیرت فیصلہ نہیں کرتی، یہ قوم کی ایمانی حرارت کا اعجاز ہوا کرتا جو فرد کو مضبوط کرتا ہے اور ایسے میں بے کس و بے بس فرد بھی مجبور ہوتا ہے کہ قوم کی نمائندگی کا حق ادا کرتا ہے۔ تحریک نظام مصطفی ﷺ نے قوم پر ایک جذب کی روشنی طاری کردی تھی۔ عوام، صدق دل کی نعمت سے بھرپور جذبات لیے اسلام کی خاطر، مقاصد وجود پاکستان کی خاطر جانیں لٹا رہے تھے۔ کسی کی نیت اور کسی کا عمل تاریخ فراموش نہیں کرتی۔ مرحوم ضیاء الحق کا کردار کسی بھی فکری حلقے میں جو بھی طے کیا جائے ان کا اپنا فیصلہ ہے لیکن ہندوستان کے سیاستدانوں کے مکر اور غرور کو راہ راست پر رکھنا اس حکمران کی ملی غیرت کا غماز ہی رہا ہے۔ اس دور کے بھارتی وزیراعظم کے کان میں جو فسوں پھونکا تو لالہ جی کے حواس جاتے رہے۔ مرحوم ضیاء الحق نے کہا تھا کہ یہ ہتھیار سجانے کے لیے نہیں۔ ہر وقت اور برمحل استعمال کرنے کے لیے بنائے ہیں اور ہم بروقت استعمال کرنے پر مجبور ہیں کہ ہماری قوم کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ پھر زور دار ایک مومنانہ اور جرأت مندانہ دھمکی نہیں بلکہ حرارت ایمانی کے غماز یہ الفاظ کہ اگر ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو دنیا بھر کی اول آخر ہندو ریاست ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی اور اگر پاکستان نہ رہا تو خیر ہے کہ پاکستان دنیا بھر کے ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے۔ جرأت کا مظاہرہ یہ ہوتا ہے۔ امن کی بات انسانوں کو سمجھ آتی ہے۔ ابوجہل اور بھارت کے ابوجہل کو سمجھ میں نہیں آتی۔ پھر ایک دور تھا کہ جنرل پرویز مشرف ہندوستان جا کر پاکستان کی بالادستی اور خودمختاری کی علامت بن کر گویا ہوئے تھے، ہندو مکر کو لاجواب اس طرح کیا کہ ان کی مذاکراتی ٹیم بغلیں جھانکتی رہ گئی۔ ہندو نہایت مکار، بزدل اور جھوٹا ہے۔ وہ سفارتی آداب سے یکسر دور ہے۔ ابھی ہمارے اعلیٰ افسر کو مذاکرات کے بہانے قید کیا۔ روزانہ کی گیدڑ بھبھکیاں ابھی تک 65ء کی زخم تازہ ہیں اور ایوب خان مرحوم کہ وہ قومی نشری تقریر جب ان کو یاد آتی ہے کہ جنرل مرحوم نے قوم سے کہا تھا کہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے ہوئے دشمنوں پر ٹوٹ پڑو۔ پھر 1971ء کی جنگ میں پاکستانی شاہینوں نے ان کے طیاروں کو کوئوں کی طرح شکار کر کے فضائوں میں پاکستانی برتری کی دھاک بٹھا دی تھی۔ منافقین کا ایک لومڑی کردار کہ وہ پاکستان میں موجود ہے۔ ان کی آوازیں ہندوستان کی جارحیت کے پہلے روز بلند اعتماد تھیں۔ جب وہ عساکر پاکستان کے تحمل اور حوصلے کو مشکوک انداز سے تبصرے کی نوک پر رکھے ہوئے تھیں۔ پھر وہ دبے الفاظ میں فوج کی دلیری اور فرض شناسی پر تبصرے کر رہے تھے لیکن جب ؎ زاغوں کا شوروغوغا سن کر عقاب جاگے ایک دوسرے سے کہتے شیران غاب جا گے شاہین بیدار ہوئے۔ اڑان بھری اور گدھوں کو خاک چٹائی، پھر وہ کامرانی کا جھنڈا اٹھاتے سرخرو ہوئے۔ باطل کی کلائی مروڑی، یہ عزم مومناں ہے اور جذبہ یقین ہے۔ اللہ کے وعدے پر مومن کو یقین ہے۔ یہ پھسپھسی سی تقریریں اور بے جذبہ الفاظ قوم کی نمائندگی نہیں کرتے۔تقریروں میں وہ جذبہ طارق بن زیاد کی تقریر اور اس کا جذبہ اپنی یاد دہرانا مانگتا ہے۔ یہ ملک کسی سیاسی جماعت یا فرد کا نہیں ہے۔ یہ شہداء کی امانت ہے۔ امن ہو یا جنگ سب کا ہدف عزت مسلم اور دین کی سربلندی ہے۔ کشمیر میں بسنے والا خون، جوانوں کی شہادتیں، عفت مآب مسلمان خواتین کی رشک ملائکہ عزتیں بدکار بھیڑیا صفت ہندو فوجیوں کی درندگی کا شکار ہیں۔ مسلمان قوم کا بچہ بچہ مقروض ہے کہ قربانی کا میدان انہیں پکارتا ہے۔ کب اور کیسے انہیں اپنی قوم کی عزت مآب دختران کی عصمت دری کا انتقام لینا ہے۔ جوانوں کا خون صبح شام آواز دیتا ہے کہ لومڑی مزاج اور بھیڑیا صفت ہندو مکار سے کب بدلہ لو گے؟ مقابلہ دو ریاستوں کا نہیں ہے۔ دو نظریات کا ہے۔ ظالم اور مظلوم کی پنجہ آزمائی کا مسئلہ ہے۔ ادھر یہ بدکردار، بے حیا، بے حس قوم جو گائے کا پیشاب متبرک سمجھتی ہے اور جن کے لیڈران اپنے ہی پیشاب کو عقل و شعور کا ٹانک سمجھ کراپنی سدھ بدھ سنوارتے ہیں اور مقابلے میں وہ قوم جو انبیاء کی برکات سے معمور آب زمزم پی کر نشہ توحید و رسالت میں مست ایمان ہے۔ یہ معرکہ حق و باطل بدر وحنین کا تسلسل ہے۔ مشرکین ہند بہت بدنیت اور بزدل ہیں۔ یہ حکمران تھے کسی دور کے کہ جب مودی کو سراہنا اور اسے اپنے گھر بلانا اسے امن کی علامت بتانا ایک رویہ بن گیا تھا۔ پھر کلبھوشن کا نام تک نہ لیں ان کی ’’امن سیاست‘‘ کا دستور بن گیا تھا۔ اب بین الاقوامی عدالتوں میں چور اور محروم ایک ہی کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اپنے گھر میں اصلاح کی اور اتحاد کی ضرورت ہے لیکن حکمرانوں کے رویے عجب کہ دشمن دانت دکھاتا ہے اور یہاں سے ایک لفظ امن اور امن کا اظہار ہے۔ امن بہت ضروری ہے۔ جنگوں سے مسائل بڑھتے ہیں لیکن اگر کوئی جنگ جبراً مسلط کرے اور پھر اس ظالم نے پانی بند کرکے ہمارے سانس لینا دو بھر کردیا ہو تو کیا امن اور جنگ کے اوقات اور پیمانے بدل نہیں جاتے؟ مذہبی قوتوں اور قوم کی خواہشات، قوم کے جذبات کی کمک ہی قوم کو متحد رکھ سکتی ہے۔ وزیراعظم کی بات میں ولولہ انگیزی کس بین الاقوامی مصلحت کا شکار ہورہی ہے۔ پوری دنیائے کفر میں جان سپاری اور جان نثاری کا وہ جذبہ، مفقود ہے جو مسلمانان عالم بالعموم اور مسلمانان پاکستان میں بالخصوص ان کی رگوں میں خون کے ساتھ دوڑتا ہے۔ بھارت کو باور کرا دیا جانا ضروری تھا کہ نہ ہم نیپال ہیں نہ سکم نہ بھوٹان۔ یہ بنگلہ دیش یا افغانستان نہیں، پاکستان کلمہ طیبہ کی اساس پر امانت خداوندی ہے۔ فرشتے بدرو حنین میں بھی آتے تھے۔ چونڈہ اور کارگل میں بھی آتے تھے۔ یہ اندلس نہیں ہے۔ یہ پاکستان ہے۔ خون شہداء کی لالی پر جوانانِ پاکستان کے ماتھے کی رگوں پر ابھری ہوئی میدان شہادت کے لیے بھڑک رہی ہے ؎ جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی کٹی ہے برسر میدان مگر جھکی تو نہیں