میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان کی حکومت دنوں کے اندر اندر فارغ ہونے والی ہے،دوسری جانب مہنگائی سے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی کرپشن رپورٹ تک کسی چیز کی تردید بھی نہیں کی جا سکتی، سوائے خود وزیر اعظم کے ان کے کسی وزیر، مشیریا پارٹی لیڈر نے بھی مہنگائی اور کرپشن کے الزامات مسترد نہیں کئے، ہاں فردوس عاشق اعوان نے غیر منتخب مشیر اطلاعات ہونے کے حوالے سے ضرور وزیر اعظم کی زبان بولی، ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ میں وہی لکھا ہوا ہے جو ق لیگ کے سینئیر راہنما کامل علی آغا نے چار ہفتے پہلے ایک چینل پر بیٹھ کر کہا تھا، حکومت کی اتحادی جماعت کے راہنما کی زہر بھرا ہوا تھا یا مکمل سچ سے لبریز تھی؟ اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ شیخ رشید بھی مہنگائی اور رشوت کے حوالے سے حکومت کی وکالت کرنے کو تیار نہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے تو کوئی ایک میگا پروجیکٹ بھی شروع نہیں کیا، نواز دور کے بہت سارے منصوبے ابھی تک ادھورے پڑے ہیں تو کرپشن ہوئی تو کہاں ہوئی؟ کس نے کی کرپشن اور کون ذمہ ار ہے روز افزوں مہنگائی کا؟ عمران خان کی ذات تک تو سب قسمیں کھا رہے ہیں کہ وہ ایک ایمان دار شخص ہیں اور ان کے دامن پر نہ پہلے کوئی دھبہ تھا نہ آج کوئی داغ دکھائی دے رہا ہے۔۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات کی سو فیصد ذمہ دار خود وزیر اعظم کی اپنی ٹیم ہے، پتہ نہیں وہ کیوں اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے دیکھنے کو تیار نہیں، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ حکمران ضدی نہیں ہوا کرتے، حکمرانی کا پہلا اور بنیادی اصول یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کے ساتھ کون کون کھڑا ہے، کس کس نے اپنے سینوں پر اختیارات کے تمغے سجا رکھے ہیں، اور آپ کی ٹیم کے ارکان کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ کیا ہے؟ ہم جس بوسیدہ نظام کی کچی اینٹوں پر کھڑے ہیں۔ ماضی کے حکمران بھی وہیں کھڑے تھے، آج آپ فرماتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہی نہیں تھا تو یہ آپ کا وہ ہوم ورک ہے جس پر ٹیچر زیرو لکھ دیا کرتے ہیں اور بچے اپنی رزلٹ شیٹ ماں باپ سے چھپاتے پھرتے ہیں۔ شیخ رشید اگر گندم کی بلا جواز امپورٹ پر انگلی اٹھا رہے ہیں تو وہ آپ کو اشارہ دے رہے ہیں کہ چور گھر کے اندر موجود ہیں، اور آپ اپنے گھر کے چوروں پر ہاتھ ڈالنے کی بھی سکت نہیں رکھتے، آپ بہادر شاہ ظفر بن جائیں گے اور آپ کے گھر کے چور سامراجی قوت کہلائیں گے۔ خود وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر اعتراف کر رہے ہیں کہ تمام شعبوں میں ریفارمز کی ضرورت تھی جو ہم کر نہیں سکے۔آپ نے پنجاب میں بلدیاتی ادارے توڑ دیے کہ ان میں اکثریت ن لیگیوں کی تھی ، مگر دوبارہ بلدیاتی الیکشن کرانا بھول گئے، پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں منتخب ارکان کی نمائندگی نہیں، آپ نے یہ کام بیوروکریسی پر چھوڑ دیا جس کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ وہ نہ آپ کی وفادار ہو سکتی ہے نہ آپ کی حکومت کی، کیونکہ آپ نے عنان اقتدار سنبھالتے ہیں اس پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا۔ جناب وزیر اعظم! موجودہ بحرانی کیفیت پر ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ نے مہر ثبت کر دی ہے ،ان حالات کو نارمل کرنے کے اقدامات کرنے کی بجائے آپ کے وزراء آپس میں دست و گریبان ہیں۔ معاملات کو سلجھانے کی بجائے بے معنی تاویلیں دی جا رہی ہیں، شیخ رشید کہتے ہیں کہ حکومت کے اندر موجود شوگر مافیا انہیں دھمکیاں دے رہا ہے، جہانگیر ترین خود یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ چینی کی قیمت حکومت کی طرف سے زیادہ ٹیکس لگانے سے بڑھی۔ایک دوسرے وفاقی وزیر فرماتے ہیں کہ چینی ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگی ہوئی، آپ ہی کی کابینہ کے وزیر جناب خسرو بختیار نے سارے کا سارا الزام ہی عوام پر دھر دیا وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پہلے سے زیادہ چینی کھانا شروع کردی ہے۔ علی زیدی صاحب نے آٹے اور چینی کی مہنگائی اور نایابی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جس پر ہم ان کے ممنون ہیں کہ کچھ لوگ تو ہیں حکومت میں جن میں سچ بولنے کی سکت ہے،حکومتی جماعت کے ایک ایم این اے سردار ریاض محمود مزاری نے بھی کھلے لفظوں میں اپنی حکومت پر کرپشن کے الزامات عاید کئے ہیں، ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ پر اگر کسی نے ایمانداری سے تجزیہ کیا ہے تو وہ ہیں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور،، گورنر پنجاب اعتراف کرتے ہیں کہ کرپشن نچلی سطح پر بڑھی ہے، ان کے خیال میں تھانے داروں، تحصیل داروں اور کلرکوں نے اپنے ریٹ بڑھا دیے ہیں اور بیورو کریسی انہیں نتھ نہیں ڈال سکی، یہی بات کامل علی آغا نے کہی تھی، وہ کہہ رہے تھے کہ جہاں پانچ سو روپے رشوت لی جاتی تھی وہاں اب پانچ ہزار بھی نہیں لیتے پچاس ہزار کی ڈیمانڈ کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے عوام کو مفت مشورہ دیا ہے کہ وہ اخبارات پڑھنا اور چینلز دیکھنا بند کر دیں تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے، وزیر اعظم صاحب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مہنگائی اور کرپشن کو جس طرح میڈیا میں اچھالا جا رہا ہے اس کے پیچھے نواز شریف کے،،، لفافے،،، چل رہے ہیں، ہاں! یہ ممکن بھی ہے کہ صحافت میں موجود ،،، لفافہ گروپ،، نے مہنگائی اور رشوت کی گنگا میں بھی ہاتھ دھونے شروع کر دیے ہوں، لیکن عمران خان چونکہ اس وقت حاکم اعلی ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ لفافہ گروپ کو پورا میڈیا نہ تصور کریں کیونکہ میڈیا میں اکثریت ان صحافیوں کی ہے جو خود موجودہ معاشی بحران کی چکی میں پس رہے ہیں۔ میں نے پچھلے ہی ہفتے سندس فاؤنڈیشن کی جانب سے منو بھائی کی دوسری برسی پر منعقد کی گئی تقریب میں محترمہ فردوس عاشق اعوان کی جانب انگلی اٹھا کر گلہ کیا تھا کہ آپ کی حکومت نے تو کارکن صحافیوں اور آزادی صحافت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے، یہ ڈاکٹر صاحبہ کا ظرف تھا کہ انہوں نے میرے اس سچ پر خاموشی اختیار کرلی۔۔۔۔ جناب وزیر اعظم! یہ آپ کی ایک بڑی غلطی ہے کہ حضور نے کرپشن پر صرف زرداری اور نواز شریف کو ہی فوکس کئے رکھا، وہ دونوں ہوں گے بہت بڑے کرپٹ،، مگر اب آپ کو علم ہوجانا چاہئے کہ زرداری اور نواز شریف جیسے اور ان کے پایہ کے کرپٹ اور کتنے اور ان گنت لوگ ہیں جو آپ کی حکمرانی میں بھی زندہ ہیں اور اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے ایسے واقعات ہیں جب پر وزیر اعظم صاحب کو سخت ایکشن لینا چاہئے تھا مگر نہ جانے کیوں وہ در گزر سے کام لیتے رہے، جیسے فیصل واوڈا کا میز پر بوٹ رکھ کر ٹی وی ٹاک شو میں شریک ہونا وغیرہ وغیرہ، آپ کہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف عوام میں بے چینی پھیلانے کے پیچھے نواز شریف کا ہاتھ ہے تو ہم آپ کی یہ بات بھی تسلیم کر لیتے ہیں مگر جناب! یہ کہاں کی حکمرانی ہے کہ اپوزیشن کی ایک خاتون آٹے کے بحران پر نکتہ چینی کرے تو آپ کے لوگ اس خاتون کے دروازے پر آٹے سے بھرا ہوا ٹرک لے کر پہنچ جائیں اور آٹے کی بوریاں وہاں اتار کر اسے کہا جائے کہ تم بھی کھاؤ اور اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں بھی آٹا پہنچا دو، یہ ایک عجیب حرکت تھی جس کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے۔ یہ جس نے بھی کیا اسے عظمی بخاری سے معافی بھی مانگنی چاہئے۔ وزیر اعظم خود بہت سیانے ہیں انہوں نے حکومت میں آنے کے لئے بائیس سال تک ریاضت کی، وہ ہر معاملے کی گہرائی تک جانتے ہیں اور ان سے زیادہ اور کسے پتہ ہو سکتا ہے کہ مہنگائی کی بنیاد ہمیشہ کرپٹ حکمرانی ہوتی ہے، مہنگائی کے جن کو بھگانا ہے تو ہمیں جمہوریت اور پارلیمنٹ کو طاقت ور بنانا ہوگا۔