انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے خالد رحمٰن بلا کے آدمی ہیں۔ مغربی اقدار و روایات اور تہذیب و ثقافت کی یلغار میں ایسی سائنسی تحقیقات سامنے لاتے رہتے ہیں،جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے جعلی اور بے بنیاد پراپیگنڈے کے خول کو توڑ کر پیچھے چھپے بدنما اور کریہہ مقاصد کو طشت از بام کرتی ہیں۔ میرے جیسے لاتعداد تشنگانِ علم کے لئے ان کے ادارے کا دم غنیمت ہے۔ آج سے تقریباً پندرہ سال قبل جب انہوں نے ایلزبتھ لیاگن (Elizbeth Liagin) کی کتاب ’’Excessive force: power politics and population control‘‘ کا ترجمہ شائع کیا تو میں خالدرحمٰن اور ان کے ادارے کا معتقد اور بے دام غلام سا ہو گیا۔ ایلزبتھ لیاگن نے یہ کتاب 1996ء میں تحریر کی تھی اور اس میں امریکی اور یورپی ممالک کی اس عالمی سازش کو بے نقاب کیا گیا تھا کہ دنیا میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے تمام پروگرام ، دراصل دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کو پہلے کم اور پھر کنٹرول کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ کتاب اِس وقت دنیا بھر کے بک سٹوروں سے غائب ہے۔ آج کی تاریخ میں ایمزون کے پاس صرف ایک جلد پڑی ہے اور خالدرحمٰن کا شائع کردہ اردو ترجمہ بھی میسر نہیں۔ ان سے درخواست کی تھی ، ایسی کتب مستقل دستیاب رہنی چاہیئں تاکہ سازشوں کے بارے میں علم کا تسلسل قائم رہے۔ ایسی ہی ایک اور حیران کن اور انکشافات سے بھرپور تحقیق گذشتہ دنوں اس ادارے نے شائع کی ہے۔ یہ تحقیق،پاکستان کے خلاف ’’مذہب کی تبدیلی‘‘کے نام پر زہریلے پراپیگنڈے کے پیچھے چھپے ہوئے ہاتھوں اور مسٔلے کی اصل ہیٔت کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ تحقیق 78صفحات پر مشتمل ہے، جو ان کی ویب سائٹ www.ips.org.pk پردستیاب ہے۔ اس کا نام ہے ’’زبردستی مذہب بدلنا یا ایمان لانا‘‘ یعنی Forced Conversions or Faith Conversions، جس کا ضمنی عنوان ’’Rhetoric and Reality‘‘بھی معنی خیز ہے ، یعنی ’’خوبصورت لفظوں کے جال میں چھپی ہوئی اصلیت‘‘۔ یہ تحقیق دراصل جرمن یونیورسٹی بیل فیلڈ (Bielefeld) اور قائداعظم یونیورسٹی کے مشترکہ پی ایچ ڈی سکالر غلام حسین نے تحریر کی ہے۔ غلام حسین نے دس سال بے شمار علاقائی شعبوں کے ساتھ ذات پات اور خواتین کے استحصال کے حوالے سے کام کیا اور ان کی لاتعداد تحقیقات، ذات پات کی سیاست ، غلامانہ مزدوری اور ہاریوں سے متعلق ہیں۔ ان کی اس تحقیق نے گذشتہ دس سالوں میں پاکستان کے خلاف ہونے والے زہریلے اور بے بنیاد پراپیگنڈے کے پس پردہ کرداروں کے چہرے سے نقاب الٹا ہے۔ رپورٹ اعلیٰ معیارات کی حامل ایک سائنسی تحقیق ہے، جس میں اخبارات کی رپورٹوں، پولیس کے مقدمات کا ریکارڈ، متاثرین سے براہ راست انٹرویو، دیگر محقیقین کی تحقیق سے استفادہ اور انٹرنیٹ کی دنیا کا وسیع مطالعہ کر کے حقائق جمع کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2010سے پاکستان میں ’’تبدیلی مذہب‘‘ کے حوالے سے ’’زبردستی‘‘ کا تصور ایک خاص منصوبے کے تحت اُچھالا گیا اور پھر اسے پوری دنیا میں پھیلایا گیا۔ اس وقت دنیا میں 19بڑی دستاویزی رپورٹیں ایسی ہیں جو عالمی سطح پر پاکستان میں ’’زبردستی تبدیلی مذہب ‘‘کے بارے میں موجود ہیں۔ ان کو کبھی ہندوؤں سے نسلی منافرت اور کبھی عیسائیوں کے استحصال کے نام سے شائع کیا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام رپورٹوں کا مآخذ (Source) صرف ایک بلا ثبوت مضمون ہے جو ایک این جی اونے لکھوایا تھا۔رپورٹ میں ایک ترتیب وار گھن چکر بتایا گیا ہے کہ کیسے پراپیگنڈے کا یہ زہر ایک منصوبے کے ساتھ سچ بنا کر پھیلایا گیا۔یہ’’ گھن چکر‘‘ دس سال قبل 2010ء سے شروع ہوتا ہے، جب ایک دو این جی اوز نے یہ خبریں پھیلانا شروع کیں کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے۔ اس میں رابعہ علی کی رپورٹ کا ہر جگہ حوالہ ملے گا، جس میں کہا گیا کہ ہر ماہ 25ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنایا جارہا ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں ان لڑکیوں کے نام ہیں اور نہ ہی پتے اور والدین کی بھی کوئی رپورٹ یا انٹرویو موجود نہیں۔ یہ رپورٹ کہ جس میں کسی قسم کے کوئی ثبوت موجود نہیںتھے، اس پر ایمان لاتے ہوئے اسے ایک سچ بنا کر پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے اپنی 2010ء کی رپورٹ میں شامل کرلیا اور پھر اس بے ثبوت رپورٹ کے ذریعے اس تاثر کو عالمی سطح پر پھیلا دیا گیا کہ پاکستان میں ہر ماہ 25 ہندو لڑکیاں زبردستی مسلمان کی جا رہی ہیں۔انسانی حقوق کے کمیشن کے ان اعدادو شمار کو دنیا بھر کی این جی اوز نے اپنی ویب سائٹس اور رپورٹوںمیں حوالے کے طور پر شائع کرنا شروع کردیا۔ اقوام متحدہ نے اگلے سال پاکستانی این جی او ’’شرکت گاہ‘‘کو بنیادی ذریعہ (Source) بتاتے ہوئے یہ رپورٹ شائع کی کہ پاکستان میںہر ماہ اندازاً پندرہ سے بیس بچیاںزبردستی مسلمان کی جا رہی ہیں۔ اسی ’’پچیس بچیاںہر ماہ‘‘ والے اندازے کو بنیاد بنا کر پاکستان نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ گذشتہ بارہ سالوں میں 1,791 بچیاں زبردستی مسلمان ہوئیں، جن میں 624عیسائی تھیں۔ یہاں بھی ثبوت اسی رابعہ علی کی بے بنیاد رپورٹ اور اس پر مبنی انسانی حقوق کمیشن کا اندازہ تھا۔ اس کمیشن نے 2014ء میں رپورٹ میں بتایا کہ ہمیں اخباری رپورٹوں کو اکٹھا کرکے تقریباً ایک ہزار بچیوں کے زبردستی مسلمان ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔یہ رپورٹ ہیومن رائٹس مانیٹر (Human Rights Moniter) میں شائع ہوئی، لیکن کمال مہارت اور بے ایمانی کے ساتھ ان اخبارات کی خبروں کے ملاحظہ کے لئے جس ویب سائٹ کانام دیا گیا تھا، وہاں ان واقعات کی کوئی تفصیل ہی موجود نہیں تھی۔ جب ایسا سب کچھ دنیا میں مشہور ہوگیا تو شرکت گاہ، عورت فاؤنڈیشن ، فافن، ایم آر جی، ایم ایس پی اور سیپ پی جیسی این جی اوز نے اسی اندازے کے تحت، ہر سال اعداد وشمار مرتب کرنے شروع کیے اور بتایا جانے لگا کہ اس سال بھی پچیس کے قریب بچیاں زبردستی مسلمان ہوئیں۔ ان ’’ہر سال اندازوں‘‘ کی بنیاد پر چھپنے والی والی رپورٹوں کی بنیاد پر ’’ایشیٔن ہومن رائٹس کمیشن‘‘ (AHRC) نے 2015ء میں یہ شائع کر دیا کہ پاکستان میں ہر ماہ بیس سے پچیس ہندو اور عیسائی عورتیںاغوا کر کے مسلمان کی جاتی ہیں۔ یوں پوری دنیا میں یہ جھوٹ ’’مصدقہ‘‘ خبر بنا دی گئی، جس کا کوئی ثبوت زمین پر موجود نہ تھا۔ 2010میں یہ بیس سے پچیس عورتیں جو پورے پاکستان سے بتائی جاتی تھیں اور آج صرف ایک ضلع عمر کوٹ میں اتنی تعداد بتائی جاتی ہے۔ ان تمام رپورٹوں کو خوبصورت گرافوں، نقشوں اور چارٹوںکی مدد سے سجایا جاتا ہے۔ کل تین یا چار جوڑے ایسے ہیں جومسلمان ہوئے، ان کی تصویریں لگائی جاتی ہیں اور پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ان سے ثبوت مانگے تو سب ایک دوسرے پر ڈالتے ہوئے رابعہ علی کی اسی رپورٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔ جب این جی اوز اور عالمی ادارے مل کر پاکستان کے خلاف ایسی رپورٹ مرتب کر لیتے ہیں تو پھر پوری دنیا خصوصاً بھارت کے متعصب ہندو اسے ایک مشن کے تحت انٹرنیٹ پر پھیلاتے ہیں۔ صرف گوگل پر اگر مذہبی تبدیلی (Forced Covnersion) ٹائپ کیا جائے تو اس کے ایک کڑوڑ بتیس لاکھ کوٹس (Quots) نکلیں گے، ساتھ پاکستان لکھا جائے تو 79لاکھ 80ہزار کوٹس (Quots) نکلیں گے۔ جولائی 2020ء تک اس سلسلے میں تین لاکھ سے زیادہ ٹوئٹ کی گئیں۔ بی جے پی نے پاکستان میں مذہب تبدیلی کے نام پر چارلاکھ چودہ ہزارویڈیو بنا کر ڈالیں۔ رپورٹ میںان تمام سوشل میڈیا کی ریٹنگ بھی دی گئی ہے۔ رپورٹ حقائق جاننے والوں کے لیئے حیرت کا ایک جہان ہے جسے ایک کالم میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ رپورٹ میں یورپی ریسرچ کرنے والوںکا بھی حوالہ موجود ہے۔ یہ یورپی سکالر بھی اس جھوٹ کا پول کھولتے ہیں، ان میں سے ایک جرمن شخص ’’مورگن شیف لیچنر(Juergen Schaflechner) بھی ہے، جس کے الفاظ ان ملک دشمن این جی اوز کے چہرے سے نقاب اتارنے کے لئے کافی ہیں۔ اس نے کہا ’’جب میں نے یہاں کام کا آغاز کیا تو مجھے بتایا جاتا تھا کہ مذہبی جنونی ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان بناتے ہیں۔ دس سال سے میں ان واقعات کی کھوج میں لگا رہا لیکن آج بھی ثبوت کے بغیر ہوں‘‘۔