جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ کشمیر پر حکومتی بیانات سے الجھائو بڑھ رہا ہے۔کہاں کا الجھائو حضور‘ یہاں تو سلجھائو ہی سلجھائو ہے۔ اکثر نے بات سمجھ لی اور چپ سادھ لی۔ جماعت کو سمجھ میں نہیں آئی تو وزیر اعظم کا تازہ فرمان پڑھ لیں۔ صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ہم جنگ میں پہل نہیں کریں گے۔ بات کرسٹل کلیئر ہوئی کہ اب بھی الجھائو ہے؟ ہم پہل نہیں کریں گے‘ بھارت کو ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس نے اپنا الّو وائٹ ہائوس کے ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ میں سیدھا کر لیا۔ بات ختم۔ تھوڑا سا مسئلہ انسانی حقوق کا اور اس پر ہونے والے عالمی احتجاج کا ہے‘ لیکن یہ احتجاج اس سے زیادہ تو نہیں جو اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام پر ہوتا ہے۔ وہ شور بھی دب گیا‘ یہ بھی دب جائے گا۔ کتنے دن کرفیو رہے گا‘ آخر اٹھانا پڑے گا۔ پھر پہلے کی طرح مظاہرے ہوں گے‘ پیلٹ گن بھی چلے گی۔ یعنی صورتحال سابقہ معمول آ جائے گی۔ سب کو سب کچھ سمجھ میں آ چکا ہے۔ جماعت اسلامی نے حسب سابق بات سمجھنے میں بڑی دیر کی۔ ٭٭٭٭٭ شاہ معظم لاہور تشریف لائے۔ بہت مرعوب کن پروٹوکول تھا۔ حسب معمول اور حسب سابق دیکھنے والوں پر مطلوبہ ہیبت طاری ہو گئی۔ایئر پورٹ سے کلب چوک تک پروٹوکول کے لئے 200ناکے لگائے گئے تھے‘ ماشاء اللہ لاہور کے سینئر صحافیوں کو بلایا‘ پھر ان سے بات کئے بغیر واپس روانہ ہو گئے۔ کہنے والوں نے کہا‘ نازک مزاج شاہاں‘ تاب نقد نہ دارد۔ یعنی سخن تو پھر بھی ٹھیک لیکن نقدو جرح کا اندیشہ تھا۔ اس لئے آتے آتے یو ٹرن لے لیا۔ خبر نگار یہ خبر بھی لائے ہیں کہ شاہ معظم کا موڈ خراب تھا کیونکہ وہ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر ناراض تھے۔ خبر نگار کی مراد کارکردگی سے ناکارکردگی ہوئی۔ بہرحال‘ یہ خبر غلط لگتی ہے۔ موڈ کسی اور وجہ سے خراب ہو گا کیونکہ پنجاب حکومت کی کارکردگی کو تو شاہ معظم درجنوں بار مثالی قرار دے چکے ہیں۔ بزدار کو وسیم اکرم پلس کا ٹائٹل بھی انہیں نے دیا۔ انصاف پرور تجزیہ نگار متفق ہیں کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی وفاقی حکومت کی کارکردگی سے بڑھ کر ہے۔ ساتھ ہی ان کا اتفاق اس بات پر بھی ہے کہ وفاقی حکومت کی کارکردگی پنجاب حکومت سے بڑھ کر ہے۔ گویا اتفاق کا نیٹ فارمولا یہ ہوا کہ وفاق پنجاب سے اور پنجاب وفاق سے بڑھ کر کارکرد ہیں۔ تو پھر موڈ خراب ہونے کی یہ وجہ ہو ہی نہیں سکتی‘ کچھ اور ہو گا۔ خبر نگار اس کا سراغ لگا پائیں تو مانیں۔ شاید کوٹ لکھپت جیل کی طرف جو شٹل سروس چلی اور پھر ناکامی کا منہ چوم کر بند ہو گئی‘ شیخ رشید کی افتتاح کردہ ٹرینوں کی طرح‘ اس ماجرے نے موڈ پر کچھ منفی اثر اندازی کی ہو۔ واللہ اعلم۔ ٭٭٭٭٭ ملک کی بے مثال معاشی صورت حال پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ آغاز ہی ان سطور سے ہوتا ہے کہ معاشی حالات چند ماہ پہلے بدتر تھے‘اب بدترین ہو گئے ہیں۔ امید ہے تجزیہ نگار اپنے لکھے پر قائم رہیں گے۔ اس لئے کہ آنے والے وقت کے بارے میں گمان کچھ اور کہتا ہے۔ یعنی یہ کہ چند ماہ قبل تجزیہ نگار کہیں یوں نہ لکھ دیں کہ حالات بدترین تو اب ہوئے ہیں‘ پہلے تو محض بدتر تھے۔ مطلب یہ کہ آج کا بدترین کچھ ماہ بعد بدترنظر آنے لگے گا کیونکہ بدترین کا نیا ایڈیشن منظر پر چھا چکا ہو گا۔ ٭٭٭٭٭ تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے مزید 15لاکھ افراد بے روزگار ہونے والے ہیں۔15لاکھ تو بے روزگار ہو چکے مزید 15لاکھ کے بعد کل تعداد 30لاکھ ہو جائے گی۔ کپتان نے کتنے کا وعدہ کیا تھا؟ یاد ہے‘ ایک کروڑ کا۔30لاکھ کا وعدہ ایک سال میں پورا ہو گیا۔ مزید دو برس میں ایک کروڑ کا وعدہ پورا ہو جائے گا۔ باقی کے دو برس جتنے ’’روزگار‘‘ نکلیں گے‘ انہیں بونس سمجھیے۔ اب تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کپتان وعدے پورے نہیں کرتا۔سچ یہ ہے کہ کپتان تو وہ وعدے بھی پورے کرتا ہے جو اس نے کئے ہی نہیں تھے۔ مثال کے طور پر اسی تجزیے میں لکھا ہے کہ 50لاکھ افراد مزید خط غربت سے نیچے لڑھکنے والے ہیں۔ پچاس لاکھ پہلے ہی لڑھک چکے۔ گویا کل ایک کروڑ کھاتے پیتے نہ کھاتے نہ پیتے ہو جائیں گے۔ دیکھیے۔ اس ’’ایک کروڑ‘‘ کا وعدہ تو کپتان نے کیا ہی نہیں تھا‘ پھر بھی پورا کر دیا۔ پی ٹی آئی کا نیا سلوگن یہ ہونا چاہیے کہ کپتان جو وعدے کرتا ہے‘ پورے کرتا ہے اور جو وعدے نہیں کرتا‘ وہ بھی پورے کرتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ لاہور میں ایک نوجوان عامر مسیح کسی الزام پر اپنی بے گناہی ثابت کرنے تھانہ گجر پورہ گیا‘ پولیس نے لاش میں تبدیل کر کے بھجوا دیا۔ پنجاب پولیس اول دن سے ہی بے گناہوں کو انصاف دیتی آئی ہے لیکن اتنے تیز رفتار انصاف کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ ایک پاگل نوجوان صلاح الدین اے ٹی ایم مشین توڑنے پر پکڑا گیا۔ اس نے چوری کی تھی نہ ڈاکہ ڈالا تھا‘ صرف توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس پاگل پر تھانے والوں نے اتنا تشدد کیا کہ جسم چھلنی ہو گیا۔ تھانوں میں لوگوں کے قتل کے واقعات پولیس کلچر کا مستقل حصہ ہیں لیکن پہلی بار اس کلچر میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ (ایک سال کے اخبارات دیکھ لیں) حکومت کا ترجمان ہر واقعے پر یہ دہراتا ہے کہ کارروائی ہو گی۔ بالکل ویسے ہی جیسے سانحہ ساہیوال(شادی پر جانے والے خاندان کا بیچ سڑک اجتماعی قتل) پر ہوئی تھی۔ سچ ہے‘ اوپر ایماندار بیٹھا ہو تو نیچے ایمانداری گراس روٹ تک ڈینگی بخار کی طرح پھیل جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ پراپرٹی والے ٹائیکون کی جیل میں آصف زرداری سے خفیہ ملاقات ہوئی ہے۔ نتیجے کی رپورٹ یہ ہے کہ زرداری نے کہا‘ ایک ٹکا بھی نہیں دونگا۔ مقدمات چلا لو۔ یعنی ٹکا سا جواب دیدیا۔ مقدمات تو چل ہی رہے ہیں اور چلانے میں مشکل بھی نہیں۔ بس اتنی ذرا سی مشکل ہے کہ کسی بھی سکینڈل سے زرداری کا براہ راست تعلق نہیں مل رہا۔ جائیں تو جائیں کہاں!