تمام پاکستانیوں کے ذہن میں یہ سوال محو گردش ہے کہ آصف زرداری کی گرفتاری پر سندھ کا سیاسی ردعمل کیا ہو گا؟مبصر ین یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سندھ آصف زرداری سے محبت نہیں کرتا مگر زرداری کے مخالفین بھی مانتے ہیں کہ وہ سیاسی پتے کھیلنے میں ماہر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ خدشہ تھا کہ اپنی گرفتاری پر زرداری نے سندھ کارڈتیار کرکے رکھا ہوگا ۔یہ حقیقت ہے کہ اپنی گرفتاری سے قبل آصف زرداری نے پیپلز پارٹی میں اپنے وفاداروں کو بار بار تاکید کی تھی کہ جیسے ہی وہ گرفتار ہوں پارٹی کے تمام کارکنان کو گلیوں؛ چوراہوں اور راستوں پر آنے کا حکم دیا جائے اور پراپیگنڈا کیا جائے کہ آصف زرداری کو سندھی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ آصف زرداری ذہنی طور پر اس زمانے میں رہتے ہیں کہ جب بینظیر بھٹو کا قتل ہوا تھا تب انہوں نے گڑھی خدابخش سے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ آصف زرداری اس خیال کا اظہار بار بار کرتے رہے ہیں کہ ان کے اس نعرے کے باعث پیپلز پارٹی کو پانچ برس ملک اور گیارہ برس سندھ پر حکمرانی نصب ہوئی۔ یہ نعرہ انہیں ایوان صدر تک لے گیا۔ پانچ برس انہیں ملکی قانون بے بس ہوکر دیکھتا رہا۔ کیوں کہ صدر مملکت آئینی طور پر اس مقام کے مالک ہیں کہ ان پر کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی۔ آصف زرداری کو اپنی سیاسی مہارت پر اس قدر ناز تھاکہ آخری دنوں کے دوران تو وہ ملنے والوں سے یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی عدلیہ میں سکت ہی نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ انہوں نے خیرپور میں ایک دعوت میں کہا تھا کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو پورے سندھ میں آگ لگ جائے گی اور پنجاب یہ افورڈ نہیں کرسکتا کہ بلوچستان کے بعد سندھ میں بھی بغاوت پھوٹ پڑے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص انداز سے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ مت بھولو کہ میں صرف سندھی نہیں۔ میں بلوچ بھی ہوں‘‘ بلوچ غیرت کے معاملے میں جذباتی ہونے کے حوالے سے بہت مشہور ہیں اس لیے آصف زرداری کے ساتھ جعلی اکاؤنٹس کے مقدمات میں ملزمہ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ کیوں کہ آصف زرداری کے پھیلائے ہوئے خوف کا کسی حد تک قانون بھی شکار ہوگیا تھا مگر جب آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا اور سندھ میں امن امان کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے الرٹ بھی جاری کیا گیا تب وفاقی اداروں نے سندھی پولیس افسران کی اس رائے کو تسلیم کیا جنہوں نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیاتھا کہ آصف زرداری کی گرفتاری پر کوئی ردعمل نہیں ہوگا۔ آصف زرداری کو ایک حد تک شک تھا کہ شاید ان کی پارٹی لاڑکانہ کو احتجاج کے مورچے میں تبدیل نہ کرپائے مگر ان کو سو فیصد یقین تھا کہ ان کا آبائی شہر نواب شاہ شدت کے ساتھ ردعمل ظاہر کرے گا۔آصف زرداری پر جب جعلی اکاؤنٹس کیس قائم ہوا انہوں نے نواب شاہ پر پہلی بار فوکس کیا۔ اس بار انہوں نے نہ صرف خود بلکہ اپنی چھوٹی بیٹی آصفہ کے ہمراہ عید بھی نواب شاہ میں منائی۔ وہاں پر ان سے ملنے والے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے اور وہ اعتماد سے جواب دیتے رہے کہ میرے تحفظ کے لیے تو میرا وہ زرداری قبیلہ ہی کافی ہے جس کا میں سردار ہوں۔ آصف زرداری نے اپنے انداز سے پارٹی کے ساتھ ساتھ ذاتی دوستی اور تعلقات کا جو نیٹ ورک بنایا تھا اس پر انہیں پورا اعتماد تھا۔ انہوں نے اپنے قریبی حلقے میں یہ تک کہا تھا کہ اگر حکومت نے مجھے گرفتار کرنے کی غلطی کی تو یہ اس کی آخری غلطی ہوگی۔ ایسا نہیں تھا کہ ایسی باتیں پھیلا کر آصف زرداری انصاف اور قانون کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ان کے ذاتی حلقے نے بھی کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ ’’آصف صاحب کو پورا یقین ہے کہ ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئے گی اور اگر آئی تو پھر حکومت جائے گی‘‘ آصف زرداری نے حیدرآباد میں کہا تھا کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو سندھ میں ایم آر ڈی سے بڑی تحریک چلے گی۔ان کو یہ یقین تھا کہ گرفتاری کی صورت میں حکومت انہیں ایک ماہ سے زیادہ جیل میں نہیں رکھ سکتی۔ اس لیے جب وہ گرفتار ہوئے تب ان کے چہرے پر پریشانی کم تھی۔ جب وہ دوسرے دن عدالت میں پیش ہوئے تو تھوڑے گھبرائے ہوئے تھے مگر اپنی پریشانی کو کنٹرول کرنے کے لیے وہ پہلی بار میڈیا کے سامنے سگریٹ پیتے رہے۔ انہوں نے سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ سے پوچھا کہ سندھ میں احتجاجی طوفان کیوں نہیں اٹھا؟ مراد علی شاہ نے انہیں ایک بار پھر تسلی دی اور کہا کہ تیاری آخری مراحل میں ہے مگر وہ مرحلہ کب ختم ہوگا؟ سندھ میں آصف زرداری کے لیے احتجاجی تحریک کب اٹھے گی؟ یہ سوال اب وفاقی حکومت؛ نیب اور قانون و انصاف کے لیے کم اور آصف زرداری کے لیے زیادہ اہم ہیں۔ آصف زرداری کی گرفتاری پر ان کے مخالفین نے مٹھائیاں بانٹی اور کئی جگہوں پر ڈھول بجائے گئے اس صورتحال میں مقامی پولیس اور رینجرز کو خدشہ تھا کہ کہیں آصف زرداری کے حامیوں اور مخالفین میں تصادم نہ ہوجائے مگر کہیں کچھ نہیںہوا۔ پیپلز پارٹی کے پرچم اٹھائے کہیں سو کہیں پچاس اور کہیں اس بھی کم کارکنان نے مقامی پریس کلبوں کے سامنے آکر بیس پچیس منٹ کی نعرے بازی کی ۔ اپنے وڈیو کلپ بنائے ۔ وہ وڈیوز اپنے بھیجنے والوں کو بھیجے اور پھر کبھی بھی احتجاجی میدان میں نہ آنے کے لیے چلے گئے۔ سندھ میں آصف زرداری کی گرفتاری کے باعث ردعمل کی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس دن آصف زرداری گرفتار ہوئے ؛ اس دن سندھ کے پرنٹ میڈیا نے اپنی اشاعت میں پچاس فیصد اضافے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے نیوز پرنٹ کے لیے فوری طور پر بندوبست بھی کیا ۔ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ آصف زرداری کی گرفتاری اور پیپلز پارٹی کے احتجاج سے اخبارات کی گرتی ہوئی سیل میں بہت بڑا اضافہ ہوگا مگر جب دوسرے دن سندھی اخبارات کے سرکولیشن برانچ نے انتظامیہ کو بتایا کہ زیادہ شائع ہونے والے اخبارات فروخت نہیں ہوئے اس لیے پرنٹ آرڈر نہ بڑھایا جائے۔ پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل نے جن سندھی اخبارات سے خصوصی تعلقات رکھے وہ اخبارات بھی اب آصف زرداری کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج کی خبر دو کالم سے زیادہ نہیں شائع کر رہے۔ شکایت کرنے پر وہ کہتے ہیںکہ آپ کچھ کریں تو ہم بہت کچھ کریں۔ آصف زرداری کے مخالفین کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کی گرفتاری کے معاملے پر سندھ اس قدر لاتعلق ہوجائے گا؟ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اگر حکومت چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے مگر سندھ کے سرکاری سرکل میں بھی یہ خوف ہے کہ ان پر بھی مقدمات قائم ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ سندھ میں کرپشن کی کی جو گنگا بہائی گئی اس کے باعث ایسے ہاتھ تلاش کرنا بہت مشکل ہیں جو کرپشن کی گنگا میں گیلے نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے ہمدرد صحافی اور اینکرز اب یہ دلیل دے رہیں کہ سندھ فوری طور پر ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔ وہ اب سے کہنے لگے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فوری بعد سندھ نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ کیا یہ زیادتی نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا موازنہ آصف زرداری کے ساتھ کیا جائے؟ بھٹو کی پھانسی کے وقت نہ صرف سندھ بلکہ پورا پاکستان ایک شدید صدمے سے گذر رہا تھا جب کہ آصف زرداری کی گرفتاری پر عوام لاتعلق ہیں۔اس سلسلے میں اگر کسی باشعور شخص سے پوچھا جاتا ہے کہ ’’آپ آصف زرداری کی گرفتاری کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ تو وہ مسکرا کر وہ شعر گنگناتا ہے جو میڈیا میں آصف زرداری کے حوالے سے بہت مشہور ہوا ہے۔ جی ہاں! وہی شعر جس کی پہلی سطر موسم سے مطابقت نہیں رکھتی مگر اس کی دوسری سطر میں بتایا گیا ہے : ’’اس طرح ہوتا توہے اس طرح کے کاموں میں‘‘!