پاکستان میں گزشتہ 10 برسوں میں زرعی ترقیاتی بنک سے 11 ارب 66 کروڑ روپے کے قرضے معاف کیے گئے ہیں۔ ملک میں زراعت کے فروغ کے لئے کسانوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی اور ٹیکنالوجی تک آسان رسائی زرعی ترقیاتی بنک کے بنیادی فرائض میں شامل ہیں مگر بدقسمتی سے سیاسی اشرافیہ نے ہمیشہ اس قومی اہمیت کے ادارے کو اپنے چہیتوں کو نوازنے اور لوٹ مار کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کا ثبوت سٹیٹ بنک کی رپورٹ ہے جس کے مطابق بنک مبینہ طور پر کرپشن اور مالی بدانتظامی کی وجہ سے 80 ارب کی خطیر رقم سٹیٹ بنک کو واپس کرنے میں ناکام رہا ہے۔ زرعی ترقیاتی بنک میں لوٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں بنک نے گرین ٹریکٹر سکیم کے تحت 94 ٹریکٹر تقسیم کئے جن میں سے 31 درخواست گزار نہ صرف لاہور کے تھے بلکہ ان کو کاغذات کی جانچ پڑتال کے بغیر ٹریکٹر دیے دیئے گئے، 21 الاٹیز کا ریکارڈ ہی موجود نہ تھا جبکہ ملتان اور گوجرانوالہ میں 8 ٹریکٹر جعلی ناموں پر الاٹ کر دیئے گئے۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں 7 ارب کے زرعی قرضے معاف کیے گئے تھے۔ بہتر ہو گا حکومت نہ صرف معاف کئے گئے قرض کی وصولی کو یقینی بنائے بلکہ قرض جاری کرنے والے بنک اہلکاروں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرے تاکہ مستقبل میں قومی وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ تھم سکے۔