مکرمی! لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان زرعی پیداوار کے لحاظ سے اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے اناج اور سبزیوں کا مسئلہ تو عام شہری کے لیے روز مرہ کا معاملہ ہی ہے مگر ملک کی اہم ترین نقد آور فصل، کپاس کے حوالے سے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں سال پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 41 فیصد اور سندھ میں 38 فیصد کمی آئی ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اندازے کے مطابق اس سال ملک میں کپاس کی مجموعی پیداوار 60 سے 65 لاکھ گانٹھوں تک رہنے کا امکان ہے اس کا مطلب یہ کہ تقریبا اتنی ہی مقدار میں کپاس در آمد کرنا پڑے گی۔ان حالات میں جب ہماری زرعی پیداوار ہر سال گرتی جا رہی ہے خود کو زرعی معیشت قرار دینا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے اس صورت حال کی ذمہ داری ہماری حکومت، ہمارے پالیسی سازوں اور ان پالیسیوں پر عمل کروانے والوں کو لینی چاہیے۔ ہمارے ملک کا موسم اور زمین ہر قسم کی زرعی پیداوار کے لیے موافق ہے مگر تکنیکی طور پر زراعت کو ترقی دینے کی مخلص اور پر عزم کوشش نہ ہونے کی وجہ سے ہم ایک ایسی زرعی معیشت بن چکے ہیں جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی در آمدی وسائل کی محتاج ہے ہر حکومت صنعتی ترقی اور برآمدات بڑھانے کے خواب دیکھتی ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ زرعی پیداوار کی ترقی کے بغیر ہمارے لیے بر آمدات کو بڑھانا نا ممکن نہیں یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ہماری بر آمدات میں کلیدی حصہ انہی اشیا کا ہے جن کا خام مال زرعی پیداوار سے آتا ہے اگر ہم کپاس کی پیداوار کو بڑھا نہیں سکیں گے اور ملکی ضرورت کے لیے ہر سال دسیوں لاکھ گانٹھیں روئی باہر سے منگواتے رہیں گے تو 13 ارب ڈالر کی ہماری ٹیکسٹائل صنعت جو ہماری بر آمادت کا کلیدی جز ہے کا منافع بھی کم ہوتا جائے گا چاول،اناج،کماد اور پھلوں،سبزیوں کی پیداوار کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ہماری حکومت در آمدات کم کر کے جاری کھاتوں کا خسارہ کم کرنے کی خواہش مند ہے مگر خوراک اور ملکی صنعت کے لیے خام مال کی بڑھتی ہوئی در آمدات پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ ( فرحان شوکت ہنجرا)