بھارت میں انڈین نیشنل کانگریس ایک قدیم سیاسی جماعت ہے جو برطانوی راج کے زمانے میں 1885 ء میں قائم ہوئی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد کانگریس بھارت میں اب تک سات آٹھ مرتبہ اقتدار میں آئی ہے ۔انیس سوباون میں لوک سبھا کے پہلے انتخابات ہوئے تو کانگریس نے کلین سویپ کیا اور جواہرلال نہرو پہلی بار ہندوستان کے منتخب وزیراعظم بنے ۔ پانچ سال بعد پھر انتخابات ہوئے تو کانگریس کو پھر برتری ہوئی اور نہرو دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے ۔ باسٹھ کے انتخابات میں اس جماعت کو پھر برتری ملی اور پھرنہرو وزیراعظم بن گئے۔ 1964 ء میںنہرو انتقال کرگئے تو کانگریس ہی سے گلزاری لال نندا اور پھر بہادر شاستری یکے بعد دیگرے مختصر مدت کیلئے وزرائے اعظم بن گئے۔اگلے انتخابات 1967 ء میں ہوئے تو نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی وزیراعظم بنیں جومسلسل گیارہ سال تک کانگریسی پلیٹ فارم سے اس عہدے کیلئے منتخب ہوتی رہیں۔1984ء میں اندراگاندھی اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں تو باقی ماندہ عرصے کیلئے وزارت عظمی ان کے بیٹے راجیوگاندھی کو سونپی گئی-سال 1984ء کے انتخابات پھرسے کانگریس پھراقتدار میں آئی اورراجیو ہی وزیراعظم بنے۔1989 ء وہ پہلا سال تھا جس میں لوک سبھا انتخابات کے نتیجے میں کانگریس کو پہلی مرتبہ شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ان انتخابات کے نتیجے میں ایک سیاسی اتحاد بنا اور وشوناتھ پرتاب سنگھ وزیراعظم بن گئے تاہم دو سال بعد حکومت اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ختم ہوئی۔ 1991ء کوچنائو ہوااوراسی سال راجیوگاندھی بھی قتل کردیئے گئے۔ اس چنائومیں جنتادل اور کانگریس کی بجائے ایک نئی جماعت سماج وادی پارٹی اکثریت لے اڑی یوں کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے سماج پارٹی نے حکومت بنائی اور وزیراعظم چندرشیکھر ایک غیرکانگریسی وزیراعظم بن گئے ۔گویا تقسیم کے بعد کانگریس مسلسل چالیس سال تک بھارت کی حکمران جماعت رہی -اندراگاندھی جیسے وزرائے اعظم اوران کے کچھ ہمنواووں نے بیشک سازشیں کرکے بنگلہ دیش کو جداکردیاجس پر ان کی جماعت کے اندر اختلافات بھی سامنے آئے ۔ان سازشوں کی وجہ سے کانگریس کے کئی رہنمااندراگاندھی سے روٹھ گئے اور یہ دلیل دیتے کہ اندرا کانگریس کی پالیسی سے ہٹ کر کام کر رہی ہیں- لیکن یہ ایک حقیقت ہمیں تسلیم کرنا ہوگی کہ کانگریس نے اپنے سیکولر منشور کی بڑی حد تک لاج رکھی اور وہاں پر بسنے والے کروڑوں مسلمانوں اور دیگراقلیتوں کے ساتھ اس کا رویہ بڑی حدتک تسلی بخش رہا۔ نوے کی دہائی کے بعد جب بھی آر ایس ایس کی کھوکھ سے جنم لینے والی بھارتیہ جنتاپارٹی کو جزوی یا کلی قتدار ملا، اس کے انتہا پسند رہنمائوں نے بھارتی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو حتی الامکان دیوار سے لگایاہے۔ آرایس ایس بی جے پی کی ماں تنظیم ہے جو 1925ء میں ناگپور میں قائم ہوئی تھی۔ اس تنظیم کے پیروکاروں کے خیال میں ہندوستان ہندوئوں کا ہے اور ہندو مت ہی کے پیروکاروں کوہندوستانی اقلیتوں پر حکومت کرنے کاحق حاصل ہے۔ آرایس ایس کے رہنماووں کایہ بھی نظریہ تھا کہ ہندوستان کے بہت سارے مسلمان پہلے ہندوالنسل تھے لیکن بعد میں ان سے زبردستی اپنا مذہب تبدیل کروایاگیا ۔ مسلمان اقلیت کیلئے موہن داس گاندھی اورجواہرلال نہرو کا نرم گوشہ بھی اس تنظیم کے لوگوں کیلئے ناقابل برداشت تھا اور وقتاًفوقتاًاس پر تنقید کرتے رہے ۔آرایس ایس پر اس وقت عارضی پابندی عائد کی گئی جب اس کے ایک انتہاپسند رکن نے جنوری 1948 ء کو موہن داس گاندھی کوقتل کردیا۔ یہ دہشتگرد تنظیم بعدمیںآہستہ آہستہ خود کو منظم کرتی گئی ۔ آج کے انتہاپسند بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی بھی اسی آرایس ایس کے پکے کارکن رہ چکے ہیں اور بہت پہلے اس نے اپنے آپ کو اس تنظیم کی خدمت کیلئے وقف کیا تھا۔1989 ء میں مودی نے آرایس ایس کی سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کو جوائن کیا۔ اقتدار میں آنے کی خاطربی جے پی کے اسی وقت کے صدرایڈوانی نے1996 ء سے 1991 ء تک بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کو پارٹی کی سیاست کا محور بنایایہاںتک کہ ایڈوانی اینڈ کمپنی نے گجرات سے ایودھیا تک رتھ یاترا کی- اسی بنیاد پرپہلی مرتبہ1989 ء کے انتخابات بی جے پی نے 85 سیٹیں جیتیں اور لوک سبھا میں تیسری بڑی جماعت بن گئی اورچار ریاستوں میں اسے اقتدار ملا۔انیس سو اکیانوے میں پھر انتخابات ہوئے تو بی جے پی کواس مرتبہ 120 سیٹیں ملیں اور پارلیمنٹ میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن کرابھری۔پھر وہی ہواجس کا انتظار تھا اور6 دسمبر 1992 ء کو بی جے پی اور وی ایچ پی کے غنڈوں نے بابری مسجد کو شہید کرکے دم لیا۔ کہاجاتاہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کے آر ایس ایس کی ممبر شپ اتنی بڑھ گئی کہ چار سال بعدجب 1996 ء کے انتخابات ہوئے تو بی جے پی 161 نشستوں پر کامیاب ہوکر پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت بن گئی اوراٹل بہاری واجپائی وزیراعظم بن گئے- لیکن یہ ایک ڈانواڈول حکومت تھی ،زیادہ دیر نہیں چل سکی۔1998 ء اور 1999ء کے چنائو کے نتیجے میں واجپائی مسلسل دوسری اور تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے ۔ ستائیس فروری2002ء میں گجرات فسادات کے وقت آج کے وزیراعظم اسی وقت گجرات کے وزیراعلی تھے اوریہ سب مظالم ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق گجرات فسادات میں کم ازکم دوہزار سے زیادہ مسلمان شہید اور بے شمار زخمی ہوئے۔لوک سبھا کے 14 ویں انتخابات 2004 ء میں ہوئے جس میں کانگریس کو کامیابی ملی اور من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے۔ 2009 ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں من موہن سنگھ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ اس کے بعدلوک سبھا کے 16 ویں انتخابات 2014 ء میں بی جے پی پھر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور انتہا پسند نریندرا مودی پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے۔۔ ظاہر بات ہے کہ نسلی عصبیت پر یقین رکھنے والی اس جماعت کو ہر اس کمیونٹی سے چڑ ہوگی جو نسل اور مذہب کے لحاظ سے ہندو نہیں ہیں۔بھارت میں بسنے والے مسلمان آج کل حکمران جماعت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہے جن کی آبادی ایک سواسی ملین کو پہنچتی ہے جوکہ بھارت کی کل آبادی کا چودہ فیصد ہے۔ دوسرا یہ کہ مسلمان ایک شاندار ماضی کا حامل قوم ہے اور اس کے ہوتے ہوئے بھارت کے چہرے پر ہندوتوا کا ماسک چڑھانا ناممکن ہے ۔ بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان آسمانی مذہب پر یقین رکھتے ہیں جوکہ دنیا کے تمام ادیان سے پرکشش بھی ہے اور تیزی سے پھیلنے والا بھی ۔اب اگر اسلام کی حقانیت کی وجہ سے اس کے قبول کرنے والوں میں اضافہ ہورہا ہے تومودی کا ہندوتوا خواب کیسے پورا ہوسکتاہے ۔