جہاں ہم ہیں وہاں دار ورسن کی آزمائش ہے عظیم الشان مرزا غالب کا یہ مصرعہ کالج کے زمانے سے طالب علم کو حیران اور مسحور رکھتا ہے، چھوٹے سے اس مصرعے میں خیال ،معانی اور فکر وفلسفہ کی لامحدود دنیا آباد ہے۔ اسلامی تصوف کے دورِ اول میں صوفیوں کے قافلے کے تین رہنما بیک وقت ،ایک شہر ایک جگہ اکٹھے ہوگئے ، دل کے رازوں کو جاننے ، خیالات کو پڑھنے اور باطن میں جھانکنے والے ایک دوسرے کی نیت اور مقدر پر نظر ڈالتے ہوئے یوں ٹکرائے جو بجلی کے گرڈ اسٹیشن سے نکلی ہوئی موٹی اور برہنہ تاریں اچانک ایک دوسرے کو چھو جائیں تو پھر تیز روشنی کی چکا چوند ، شعلے اور دھماکے بھی ، جو تار تھوڑی کمزور ہے وہی پگھل کر بہہ جائے گی۔ تصوف کے بجلی گھروں میں جنید بغدادیؒ، شبلیؒ اور حسین ابن منصور حلاجؒ ایسی ننگی تاریں ایک دوسرے کو چھو گئی تھیں ،مگر آج تک یہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ ان بھڑکتے شعلوں میںکون جلا اور کون بچ رہا۔ مگر یہ ہوا کہ اس دن سے تصوف اور فقر کا راستہ بہت شاخوں میں بٹ گیا، تب سے آج تک یہ لکیریں ریل کی پٹڑی کی طرح متوازی چلی آتی ہیں، تصوف کی گاڑی انہی پٹڑیوں پر چلتی ہے مگر یہ آپس میں ملتی ہیں نہ جدا ہوتی ہیں۔ ایک بھید تھا سینوں میں چھپا ،جیسے زیرِ زمین کھولتا ہوا لاوا جو کمزور سطح زمین کو پھاڑ کر باہر نکلے، جسے ہم آتش فشاں کہتے ہیں۔ یہاں پر یہ ہوا کہ جس فقیر کی تہہ کمزور تھی وہ پھٹ گیا اور ’’اناالحق ‘‘ کا لاوا پھوٹ پڑا: تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا میں ہی تو ایک راز تھاسینۂ کائنات میں منصور حلاج کا بیٹا حسین بھید تو پاگیا لیکن راز نہ رکھ سکا، حضرت اقبالؔ نے فرمایا تھا کہ : بھری بزم ِ میںراز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں حلاج کے بیٹے نے بھی بھری بزم میں بھانڈا پھوڑ دیا، راز اگل دینے میں کچھ بھگتنا تو ہوتا ہے مگر کس کو؟ یہ سوال اب بھی باقی ہے۔ ویسے یہ راز کوئی ایسا بھی راز نہ تھا ، جنید بغدادی آگاہ تھے، شبلی بھی اور حسین بن منصور کی بڑی بہن برسوں سے اس بھید میں راز دان تھی، ابن منصور نے یہ راز اپنی بہن سے پایا، اس کی بچ رہنے والی ’’دُردِ تہہ جام‘‘ کے چکھ لینے سے سینے کے اندھیروںمیں روشنی کا ایک کوندا اس میں جو کچھ نظر آیا وہ حسین کی حد اور جسارت سے کچھ زیادہ ہی تھا جسے سن کر بادشاہ بھڑک اٹھا، جنید نے خشک لکڑی کی نوید سنائی، شبلی خاموش رہا، اس نے زبان کھولی نہ گواہی دی، تین روشن ضمیر مردوں میں چوتھی حسین ابن منصور کی بہن’’سب ایک دوسرے کی نیت اور مقدر کو پڑھتے ہوئے ۔جنید نے جب خشک لکڑی کا ذکر کیاتو حسین بن منصور نے کہا تب آپ بھی فقرکی دستار اتار کر ’’قضاء کا جبہ ‘‘پہن لوگے۔ اور شبلی خاموش ان کی رازدارانہ گفتگو پر ہونٹوں کو جنبش دیئے بغیر مسکراتا رہا ، لکڑی کے ذکر میں ابن منصور کے لیے سولی کا ڈراوا تھا، قضاء کے ’’جبے ‘‘میں جنید کی آنے والے ناگوار فیصلے کی تائید اور شرکت کی اطلاع تھی ، پھر وہی ہوا ، ابن حلاج ’’انا الحق‘‘ کے جرم میں معتوب ٹھہرا تو جنید بغدادی قاضی کے لباس میں فتوے کی تائید پر مجبور ہوا۔ سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے اس کا ایک ایک عضو کاٹا گیا، ہاتھ ، پاؤں، ناک ، کان ، ہاتھ کٹے تو اس نے خون بہتے ٹنڈ منڈ بازوؤں کو اپنے منہ پر پھیرا تو تازہ لہو سے چہرہ گلنار ہوگیا۔ بولا، بے وضو نماز نہیں، اور نماز عشق کے لیے اپنے لہو سے بہتر وضو کہاں؟۔تماشائیوں نے اسے دین کا گناہگار سمجھ کر پتھر مارے تو برستے پتھروں میں ایک پھول بھی تھا جو شبلی کی طرف سے پھینکا گیا ۔تب حلاج نے کہا پتھروں کی کوئی ضرب ناگوار نہیں، مگر اس پھول نے مجھے گھائل کردیا کہ ’’پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‘‘ کہتے ہیں یہ سزا نہیں ، دعویٰ ’’انا الحق‘‘ کے لیے آزمائش تھی، بڑی آزمائش ، لیکن غالب کے مصرعے پر غور کرتے ہوئے ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ یہ کس کی آزمائش تھی، حلاج کی ؟اس کی بہن کی جن نے سب کچھ جاننے کے باوجود اپنے پیالے سے حسین کو گھونٹ پینے دیا،جنید کی؟ جس نے لکڑی کے راز کو جانتے ہوئے اپنے شاگرد کو روکا نہ اس کے خلاف فیصلے میں شرکت سے باز رہ سکا ، یا شبلی ؒ کی جو ہاتھ میں پھول لیے بے رحم تماشائیوں کے بیچ یہ دردناک منظر دیکھنے کو موجود رہا، نہیں، شاید یہی مقدر ہے لوح ازل پر لکھا، کوئی بھی اس سے بچ سکا نہ کوئی بھاگ پائے گا، جنید اور شبلی بدل سکتے تھے نہ بہن کا اضطراب اس ہونی کو روکنے پر قادر تھا، سب نے اپنے لکھے کو پورا کیا پھر بھی کھل نہ سکا، یہ آزمائش کس کی تھی؟کیا ہمارے باپ خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے آزمایا گیا تھا؟یا آگ کو ابراہیم علیہ السلام سے؟ کہ آگ کو اپنی ازلی فطرت بدلنا پڑی۔ابراہیم علیہ السلام کے لیے نارِ نمرود کو اپنی فطرت بدل لینا کیا آسان رہا ہوگا؟ کیا منصور کے بیٹے کو موت سے آزمایا جاسکتا تھا، جو ہمیشہ اپنی روح دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے پوروں کے درمیان لیے پھرتا تھا کہ اس کو لوٹانے میں دیر نہ ہوجائے، جوں شبنم کا قطرہ سورج کی کرن کے ساتھ بے تابی سے پرواز کرتا اپنے سمندر کی طرف قطرے سے سمندر بننے کو یا سورج کی کرن شام ڈھلتے ہی مہرتاباں کے بوسے کو پلٹتی ہے، شاید یہ سولی کے تختے اور پھانسی کے پھندے کی آزمائش تھی جو مجرموں ، باغیوںا ور گناہ گاروں کے لیے بنائے گئے کہ انہیں اذیت کے ساتھ دردناک موت کا مزہ چکھائیں۔ لیکن ایک دن ابراہیم خلیل اللہ کی آگ کی طرح خود حسین بن منصور کے ہاتھوں سولی کی لکڑی کو درد و اذیت سے گزرنا پڑا ۔ بارہ طویل صدیاں گزرنے پر بھی منصور تو آج بھی زندہ ہیں، ہر مذہب وفکر کے کروڑوںانسانوں کی دعاؤں اور یادوں میں ہنستا مسکراتا ہوا ، آج حلاج کا بیٹا ہے نہ جنید اور شبلی مگر مقدر کا کھیل اور آزمائش کی گھڑیاں یہ نہ ختم ہونے والا ازلی سلسلہ ہے جسے ابد تک رہنا ہے۔ آج پھر آزمائشوں کے پھندے لگے ہیں، اب کی بار پلڑے میں تلنے والا پیر ،پیغمبر ہے نہ درویش اور صوفی۔ اب کے یہ گھڑی مملکت خداداد پر اتری ہے جس نے خود کو پاک لوگوں کی سرزمین کہا ، صدیوں بعد مسلمانوں کی آرزوؤں کی تکمیل کا عہد باندھا ، وعدہ تو کیا اپنے خدا سے ، پھر طویل خاموشی کو ایک دن ٹوٹنا ہی تھا، قیامت سے پہلے کا روزِ حساب ،آزمائشوں کی گھڑیاں ، فیصلوں کے دن ، اللہ کی بخشی پاک سرزمین پر بندوں کو بھنبھوڑنے اور لوٹ کھانے والے کا یومِ حساب دور سمندر سے اٹھتی لہر پاکستان کے ساحل سے ٹکرانے والی ہے، مجرم نامی ہے جرم سنگین ، تختِ کرم خوردہ ، پھندے بوسیدہ ، بڑے جرم کے بھاری مجرم کا بوجھ اٹھاپائیں گے یا ان کی بوسیدگی زمانے کی استہزاء کا باعث بنے گی۔ملک کے نظام اور اداروں کی حالت دیکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ آج نیب کے پردے میں جو راز نمایاں اور جرم ہویدا ہے ان میں کون کون کس طرح آزمایا جائے گا، ریاست کے سب ادارے ، سارے ستون آزمائے گئے، فوج اور عدلیہ کسوٹی پر کسے ہیں، باقی سب کرم خوردہ لکڑی کی طرح بودے اور کھوکھلے نکل آئے، ذرا بھی بوجھ نہ سہارا ، دھڑم سے آن گرے۔پارلیمنٹ ، ایف آئی اے، نیب نہ ایف بی آر۔سب نے سپریم کورٹ کے روبرو سچ بتایا کہ ہم ریاست کے اخراجات پر پلنے والے ذاتی ملازم ہے جنہیں عوام کو لوٹنے کی اضافی سہولت بھی میسر ہے ، ہمیں جس آقا نے دفتر دیا اس کے مفاد کا تحفظ کریںگے، مفادات کی حدود اور تفصیلات وہی ہوں گی جو آقائے ولی نعمت خود طے کریں۔ آج اسی فقیر کے ذریعے نہیں ، دولت مند ، طاقتور سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ذریعے عدل ،نظامِ عدل ،ریاست ، عوام اور اداروں کی آزمائش ہے۔نیب ، پارلیمنٹ، ایف آئی اے، ایف بی آر، رائے عامہ کے بڑے ادارے مکھیوں کی طرح زہریلے ’’گُڑ‘‘ پر منڈلارہے ہیں، اپنی ہلاکت سے بے خبر ، اس لیے کہ ’’گُڑ‘‘ میٹھا جو ہے۔