میاں صاحب محترم! اب یہ نہ سمجھیے کہ سینیٹ الیکشن کے ہنگاموں میں وہ ایشو پس منظر میں چلا جائے گا جس کے حوالے سے ہم غریب کارکن آپ کا دفاع کر رہے ہیں۔ آپ نے جب بھی دعویٰ کیا کہ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو پھانسی پر لٹکا دو‘ ہم نے آپ پر یقین کیا۔مگر یہ بے برکت‘ بے ثمر یقین کب تک قائم رہے گا؟ ہم غریب کارکن‘ پیدائشی مسلم لیگی‘ آپ کے لئے لوگوں سے جھگڑتے رہے۔ جلسوں میں دریاں بچھاتے‘ کرسیاں لگاتے ہماری عمریں غروب کے قریب پہنچ گئیں۔ ہم نے آپ کے بڑے بھائی کی نوکری کی‘ آپ کی اردل میں کھڑے رہے۔ آپ کے صاحبزادے کے سامنے رکوع کی حالت میں رہے۔ اب آپ کی برادر زادی بھی ہم سے اطاعتِ کُلّی کا تقاضا کر رہی ہے! ازراہِ لطف و عنایت یہ وضاحت تو فرما دیجیے کہ پارٹی کے ناخدا آپ ہیں یا بی بی؟ افسوس! آپ نے اپنی طویل حکومت کے دوران ڈراموں کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ سیلاب آیا تو لمبے بوٹ پہنے اور فوٹو سیشن کروائے۔ اگلے سیلاب کے لئے پیش بندی کبھی نہ کی۔ اس لئے کہ پیش بندی کرتے تو سوچ بچار کرنا پڑتی۔ اس میں تصویر بازی نہیں چلتی! سنجیدگی اور متانت درکار ہوتی ہے! جس کا آپ کے ہاں ہمیشہ قحط ہی دیکھا! ہم دیکھتے رہے! دم بخود بیٹھے رہے! کیا کرتے؟ خاندانی مسلم لیگی ہیں۔ چھوڑ کر کہاں جاتے؟ جس دن عدالت عظمیٰ میں آپ نے اعتراف کیا کہ ہاں! کروڑوں لگ گئے مگر صاف پانی کی ایک بوند نہ ٹپکی‘ اس دن میں گھر سے نہیں نکلا۔ حریفوں کوکیا جواب دیتا۔گھر میں رضا کارانہ نظر بندی تو میں نے اُس دن بھی اختیار کر لی تھی جس دن آپ نے زرداری صاحب کے لئے بہتر پکوان تیار کرائے۔ وعدہ ان کا پیٹ پھاڑنے اورشاہراہوں پر گھسیٹنے کا تھا! مگر اب جو مسئلہ آن پڑا ہے وہ پہلے سے مختلف ہے! لندن کے اخبار ڈیلی میل میں جو سٹوری شائع ہوئی ہے‘ اس کے حوالے سے آپ نے اعلان کیا تھا کہ عدالت میں جائیں گے۔ ابھی تک عدالت میں آپ گئے نہ آپ کا کوئی وکیل نہ کوئی نمائندہ!یہ اتنی واضح اورکھلی پسپائی ہے کہ ہم باہر نکلیں تو شاید چہرے ڈھانپنے پڑیں۔ آپ کے عدالت میں نہ جانے سے واضح ہو رہا ہے کہ دال میںکچھ کالا ضرور ہے۔ آپ کے داماد آخر ملک سے کیوں بھاگ گئے ہیں؟ دامن صاف ہے تو ڈٹ کر یہاں کھڑے کیوں نہیںہو جاتے؟ شہزاد اکبر آئے دن پریس کانفرنسیں کر کے آپ کو آئینہ دکھا رہا ہے۔ آپ ہیں کہ پلک تک نہیں جھپک رہے! وہ شخص ہے نوید‘ اس کے ساتھ آپ کا کیا تعلق تھا؟ یہ آفتاب نامی شخص جو گرفتار ہے کیا بتا رہا ہے؟ آپ شہزاد اکبر کی کانفرنس کے جواب میں کیوں کچھ نہیں کہہ رہے؟آپ کو نہیں‘ مگر ہمیں شرم آ رہی ہے اور حیا بھی‘ اگر عدالت میں نہیں جا رہے تو کارکنوں کے کان ہی میں اعتراف کر لیجیے کہ ہاں! سٹوری درست ہے اور شہزاد اکبر کے الزامات کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں! اس سے پہلے وال سٹریٹ جرنل نے کھلم کھلا الزامات لگائے۔ کراچی الیکٹرک لمیٹڈ کا نام چھپا۔ بیس ملین یعنی دو کروڑ ڈالر کی رقم کا آپ کے بھائی پر الزام لگا۔ اس وقت بھی عدالت میں کوئی نہ گیا۔ آپ حضرات کا دامن صاف ہے تو امریکی اور برطانوی عدالتوں میں کیوں نہیں مقدمے دائر کرتے ان اخبارات کے خلاف ؟آپ ہیں بھی تو وہ نسخہ بتائیے جس کے فیض سے آپ دونوں بھائی یہ الزامات ہضم کر لیتے ہیں۔ ہم غریب کارکن تو الزام کیا‘ طعنہ تک نہیں برداشت کر سکتے۔ ہم سے تو خواجہ آصف صاحب کا یہ فقرہ نہیں ہضم ہو رہا جو پانامہ کے موقع پر انہوں نے کہہ کر تاریخ میں ہمیشہ کے لئے اپنا اور اپنے ممدوح کا نام محفوظ کرا لیا کہ’’میاں صاحب! کچھ دنوںمیں لوگ سب کچھ بھول جائیں گے۔‘‘ یہ گویا ایک گواہی تھی جو گھر کے بھیدی نے دی! میاں صاحب ! آج اگر اسٹیبلشمنٹ حاوی ہے اور مبینہ طور پر اصل طاقت کا منبع وہیہ ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اس کا بھی ذمہ دار آپ دونوں کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ اگر سرخ لکیر عبور کر کے آگے آ چکی ہے تو اس لیے کہ اسے معلوم تھا آپ کے تلوں میں تیل نہیں! آپ حضرات دیانت دار ہوتے‘ ملک کے لئے مخلص ہوتے‘ اپنی جیبیں نہ بھرتے‘ تو عوام آپ کے لئے جانیں قربان کر دیتے۔ اردوان کے لئے جب ترک عوام نکلے تو آپ نے بھی بغلیں بجائیں مگر یہ نہ سوچا کہ اردوان ترکی کو کہاں سے کہاں لے گیا؟ پاکستانی عوام سے تو آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ترک عوام کی پیروی کریں مگر خود آپ تنکا بھی نہیں توڑنا چاہتے۔ کارکنوں سے امید باندھتے ہیں کہ وہ آپ کے لئے باہر نکل کر طوفانوں کا سامنا کریں مگر آپ کے داماد اور اولاد لندن ہی میں رہے۔ بتائیے کہ ہم معترضین کو کیا جواب دیں کہ بقول فراق ؎ تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے زمانے سے لڑائی مول لے تجھ سے بُرا بھی ہو؟ کاش!آپ لاہور کو بدنام کرنے کے بجائے لاہور کے لئے کچھ کر بھی جاتے لاہور کو سب سے زیادہ ضرورت زیر زمین ریلوے کی ہے۔ آپ دہلی گئے۔ ان کی میٹرو ٹرین دیکھی۔ اس میں سفر کیا اور واپس آ کر میٹرو بس کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ سنگا پور سے لے کر تاشقند تک۔ دہلی سے لے کر کوالالمپور تک ہر جگہ زیر زمین ریلوے چل رہی ہے۔ آپ دونوں بھائیوں کی سوئی بس پر ہی اٹکی رہی۔ جتنا طویل عہدِ اقتدار آپ کو قدرت نے دیا کم ہی خانوادوں کو نصیب ہوا ہو گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کراچی سے لے کر اسلام آباد تک ہرب ڑے شہر میں زیم زمین ریلوے چل رہی ہوتی مگر نہجانے کیوں یاسا نہ کیا حالانکہ لوہے کا استعمال اس میں بھی وافر ہونا تھا!! افسوس! آپ کا ہر امیج‘ ہر تصویر مضحکہ خیز ہی رہی! لمبے بوٹ! لہراتی ناچتی انگلی! تقریر کرتے وقت مائک ایک ایک کر کے سارے گرا دینا! درجنوں وزارتیں اپنی جیب میں رکھنی! یہ سب کچھ جیسے کم نہ تھا کہ لندن میں آپ بھاگ کر شاہراہ عبور کرتے پائے گئے۔ تعجب ہے کہ برطانیہ آپ کا دوسرا بلکہ پہلا گھر ہے مگر آپ کو زیبرا کراسنگ کا نہیں پتہ تھا۔ یہی روڈ کراسنگ آرام سے بھی ہو سکتی تھی۔ لوگوں نے ہمارا ٹھٹھہ اڑایا۔ کم از کم ایک کام یہ کر دیجیے کہ برادر زادی کے ساتھ بیٹھ کرطے کر لیجیے کہ باس کون ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جو آپ نے محنت کی تھی راتوں کے اندھیرے میں چھپ چھپ کر جی ایچ کیو جانے کی اور اپنا دوست نما امیج بنانے کی‘ وہ ساری محنت ضائع ہو جائے! یا کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ نورا کشتی ہے اور سب کچھ پلاننگ کے ساتھ ہو رہا ہے کہ خاندان میں ایک چہرہ کھردرا ہو اور ایک ملائم‘ اور ایک بڑے میاں صاحب کا جو کھردرا ہو نہ ملائم بلکہ بہت ہی معصوم جیسا ابامہ کے سامنے چٹ پڑھتے وقت تھا! ہم پر رحم کیجیے! ہم کب تک گھروں میں چھپ کر بیٹھیں گے؟ کب تک نظریں جھکا کر چلیں گے؟ فقط ایک مسلم لیگی کارکن