ہے تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا ہو گا ہو چکی اپنی پذیرائی بھی بات یوں ہے کہ مجھے ان دونوں سوچوں نے پریشان کر دیا اور نتیجتاً میں ادارس ہو گیا۔ آدھا دسمبر گزر چکا اور اسے ہم موسم سرما کہتے ہیں اور یہ موسم خزاں کے بعد آنے والا موسم ہے مگر کیا کیا جائے کہ خزاں ختم ہی نہیں ہوئی اور یہ اس یخ بستہ موسم میں بھی در آئی ہے کہ چندپات شاید درختوں میں رہ گئے تھے۔ بعض جگہ واقعتاً زمستاں ایسے آتا ہے کہ سب کچھ مردہ ہو جاتا ہے‘ یہ پات رہتے ہیں درختوں پر نہ پرندے۔ پہلے ہمارے دوست طاہر احمد لندن میں رخصت ہوئے‘ سوچا کہ کچھ لکھتا ہوں‘ پھر عارف شفیق ‘مگر اس سے چند روز قبل طالب جتوئی اور اب سوشل میڈیا پر صدیقہ بیگم کی رحلت کی خبر آ گئی۔ دل نے کہا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ ہائے ہائے تخلیق کاروں کے لئے یہ موسم پت جھڑ کیسا آیا ہے: پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں طارق احمد جس کے بارے میں عطاء الحق قاسمی بھی کالم تحریر فرما چکے ہیں، میرے بیج فیلو تھے کہ ایم اے انگریزی کی تیاری ہم برٹش کونسل میں بیٹھ کر کیا کرتے تھے۔ ایک شوخ اور چنچل نوجوان۔ اسے لندن جانے کا جنون تھا۔وہ چلا بھی گیا اور پھر اس کا حوالہ بات بات میں دیتا تو میں اس کا تکیہ کلام اچانک دہرا دیتا کہ اچھا When you were in englandوہ بھی میرے ساتھ قہقہہ لگا دیتا۔ وقت گزرتا گیا وہ بھی انگریزی کا استاد ہو گیا اور میں بھی۔ پھر وہ میرے ہی اخبار میں میری طرح کالم لکھنے لگا۔ آئین اور قانون کی پاسداری پر زبردست بحث و مباحثہ کرنے والا۔ پھر وہ لندن ہی میں جا مقیم ہوا۔ وہاں سے ہی لکھتا رہا۔ مجھے تو اس کی بیماری کا بھی علم نہ ہوا۔ اچانک پتہ چلا کہ موذی کینسر اسے لے گیا۔ اچانک جیسے ایک جیتا جاگتا لمحہ اچانک پتھر میں بدل کر میرے جسم پر آن لگا۔ میں نے تو اسے ہمیشہ ہنستے اور قہقہے لگاتے دیکھا تھا اس کے لئے میں نے سورۃ ملک پڑھی۔ اللہ اس سے نہایت نرمی کا معاملہ کرے۔ آمین۔ طالب جتوئی کے ساتھ میں نے کچھ مشاعرے پڑھے۔ نہایت باکمال شاعر پنجابی شاعری پر مکمل دسترس تھی: اینہاں اتے کر کے مان نہ چھیڑیں سفر دوپہراں دے چناںایہہ بدلاں دے ٹوٹے بے اتبارے ہوندے نیں ان کی ایک نظم ’’بس کا سفر‘‘مجھے کبھی نہیں بھولی کہ ان کے ساتھ میں نے بس کا سفر بھی کیا۔ تب ہم ساہیوال جا رہے تھے۔ شہزاد احمد بھی ساتھ تھے۔ ہم نے فرمائش کر کے ان سے وہ نظم سنی کہ وہ ایک شاہکار نظم ہے۔ مجھے نظم یاد نہیں مگر درمیاں سے اس کا کچھ مفہوم یوں تھا۔ ’’اک بندے نے اوسے بس وچ‘ لیا کے بھیڈاں دتیاں ڈھک۔ تے سارے رستے اوھناں پیڈھاں پونجھے ساڈے جھگیاں نال نک‘ کسی نے اس بس میں بھڑیں لاد دی اور ان بھیڑوں نے سارے رستے ہمارے کپڑوں کے ساتھ اپنی ناک صاف کی‘ بہت خوش مزاج اور اعلیٰ شاعر تھے۔ اللہ غریق رحمت کرے۔ عارف شفیق کا تعلق کراچی سے تھا۔ میں انہیں کبھی نہیں ملا۔ مگر اس دن کی شہرت چاروںدانگ تھی۔ خاص طور پر ان کا ایک شعر ان کا زبردست حوالہ بنا: غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی وہ کچھ عرصے سے صاحب فراش تھے اور اب میں نے سوشل میڈیا پر دوستوں کی پوسٹیں دیکھیں اور عارف شفیق کی باریش مدبر صورت کہ ان کا ایک سنجیدہ حوالہ تھا۔ مجھے اپنا دوست جمال احسانی بھی یاد آ گیا کہ جب بستر مرگ پر تھا تو میں اسے کراچی کے ہسپتال میں ملا۔ آصف شفیع میرے ساتھ تھا جمال احسانی نے میرا ہاتھ تھام کر اپنا شعر پڑھا: چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے تو یقینا ایک چراغ کی صورت عارف شفیق بھی تھے جن کے لفظ رہتی دنیا تک چراغوں کی صورت لو دیتے رہیں گے۔ صدیقہ بیگم سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ معروف اور تاریخی ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی مدیر تھیں۔ اس سے بڑھ کر وہ ادیبہ اور دانشور تھیں۔ وہ میری لائبریری والے برکت علی کی بیٹی تھیں’’میری لائبریری‘‘ اردو ادب کا ایک ایسا ادارہ ہے جس نے بڑے بڑے ادیبوں کے کتب شائع کیں۔ حنیف رامے کا بھی اس خاندان سے تعلق تھا۔ اردو بازار کے خالد صاحب بھی اس خاندان سے وابستہ ہیں۔ اس خاندان نے پوری ایک نسل کی ادبی خدمت کی ہے صدیقہ بیگم ایک پروقار خاتون تھیں ادب میں گندھی ہوئی ان کا جانا ادبی دنیا میں بہت شدت سے محسوس کیا گیا مگر کیا کیا جا سکتا ہے: خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں بہرحال جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اس نے آخر جانا بھی ہے۔یہ تو بلکہ ٹوکویں ہندسے ہیں۔کہ اس میں عمروں کا خیال رکھا جاتا ہے نہ عہدوں کا۔ ہمارے ایک پرنسپل صاحب کہا کرتے تھے کہ لمبی عمر کی توقع رکھو اور ہر لمحہ موت کے لئے تیار رہو۔ وقت گزرتا جاتا ہے لوگ بھی گزرتے جاتے ہیں۔ غالب نے کیا خوبصورت کہا تھا’’نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا‘‘وجہ بھی کیا خوب ہے کہ ’’ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا‘‘ مڑ کر دیکھتے ہیں کتنے بچھڑے ہوئے دوست یاد میں آ کر اداس کر جاتے ہیں۔ ابھی کل محترم اسلم ملک نے پوسٹ لگائی کہ ہمارے دوست ازہر درانی کی برسی ہے۔ میں تو واپس اس زمانے میں پلٹ گیا کہ ہم ہر وقت اکٹھے گھومتے۔ کیا زبردست آدمی تھا۔ اس کی وفات کے بعد اس کی بیگم کو سٹیٹ بنک میں ملازمت مل گئی اور دیکھیے کہ اب مجھے میرے دوست نے اطلاع دی کہ وہ بھی دنیا سے چل بسیں۔ موت پر کس کا اختیار ہے۔چلیے اپنا کالم ازہر درانی کی ایک لازوال غزل کے چند اشعار پر ختم کرتے ہیں: کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی قدم قدم یہ صلیبوں کے جال پھیلا دو کہ سرکشی کی تو عادت ہے سر اٹھانے کی ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی