سمت نصیب ہو تو ابتلا سے قومیں اور بھی طاقتور بن کے ابھرتی ہیں۔ زخم ہی نہیں دھلتے بلکہ نئے جہان نمودار ہوتے ہیں۔صدیوں سے چلی آتی زنجیریں پگھل جاتی ہیں۔ آدمی اپنے رجحانات کا اسیر ہوتاہے۔ کوئی بڑا خوف،خطرہ اور دھچکا ہی ذہن کے منجمد سانچے پگھلاتا ہے۔ کبھی کسی نے کہا تھا:I have grown a jungle in my mind'I dare not to enter in۔ اپنے سر میں ایک جنگل میں نے اگا لیا ہے، جس میں داخل ہونے کی ہمت نہیں پاتا۔ نفی ء ذات کی ضرورت یہیں ہوتی ہے۔عارف نے کہا تھا:زیاں بہت ہے، انسانی زندگی میں زیاں بہت۔ ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہ ء گل یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادمراد؟ خالق کو اسی لیے غور وفکر پہ اصرار ہے۔ توبہ کا دروازہ اسی لیے چوپٹ کھلا رہتاہے۔ سچائی اور حقائق کی طرف آدمی پلٹتا ہے تو حیات کے در کشادہ ہونے لگتے ہیں۔ علم اور احساس رکھنے والے ہی خود کو بدل سکتے ہیں۔ حادثات ان کے لیے قدرت کا انعام ثابت ہوتے ہیں۔ سبق سیکھ لیا جائے تو زندگی راہ بدلتی اور صحت مند ہونے لگتی ہے۔حصولِ آزادی کے 84 سال بعد 1859ء کی خانہ جنگی نے امریکی معاشرے کو بدل ڈالا۔ عالمگیر جنگوں سے آدمیت نے بہت سے سبق سیکھے۔ اگرچہ کچھ ناقص تصورات بھی پروان چڑھے۔امن کا احساس نسبتاً بڑھ گیا لیکن فرد کی لامحدود آزادی کے تصور سے نقصان بھی بہت پہنچا۔ سنگا پور، کوریا، چین اور جاپان زیادہ منظم معاشرے ہیں؛چنانچہ بسہولت کورونا سے نمٹ سکے۔ گھبراہٹ کا شکار نہ ہوئے۔ تیزی سے اٹھے اور اب نسبتاً زیادہ محفوظ ہیں۔مغرب کی آزادی اس کیلئے وبالِ جان ثابت ہوئی۔ وبا اپنے ساتھ خوف لے کر آتی ہے۔ ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ اپنے تمدن کی حفاظت کرنے اور نظم و ضبط کو اہمیت دینے والے معاشرے بچ نکلتے ہیں۔ امریکہ، اٹلی، سپین، جرمنی اور برطانیہ بروقت بروئے کار نہ آسکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو حد کر دی۔ وہ تو یہ کہتے رہے کہ ان کا مخالف امریکی میڈیا خوف پھیلا کر ان کی انتخابی مہم مجروح کرنا چاہتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اور کاروباری لوگ امڈ امڈ کر آتے رہے۔ لگ بھگ ایک سو اقوام کے لوگ امریکی معاشرے کا حصہ ہیں۔ واشنگٹن، نیویارک،کیلیفورنیا اور میامی کے ہوائی اڈوں پر جہاز چڑھتے اور اترتے رہے، بیماری پھیلتی چلی گئی۔ کمزور انتظامی ڈھانچے اور فعال طبقات کے ناقص اندازِ فکر کے باوجود پاکستان کم متاثر ہوا۔ مغرب کے مقابلے میں مرنے والوں کی تعداد تھوڑی ہے؛حالانکہ تشخیص اور علاج کی سہولتیں برائے نام، قانون نافذ کرنے والے ادارے کمزور اور مذہبی طبقہ بے لگام۔ پاکستانی معاشرہ کن حماقتوں کا شکار ہوا؟ سب سے بڑھ کر تو ایران سے آنے والے زائرین۔ خطاکے مرتکب وہ خود نہیں تھے۔ ایرانیوں نے چھپانے کی کوشش کی اور پھرپاکستانی زائرین کو بے دردی سے ویرانے میں لا پٹخا۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ تہران میں پاکستانی سفارت خانے اور پاکستانی وزارتِ خارجہ کو مطلع کرتے۔ حکومتِ پاکستان بھی کوتاہی کی مرتکب ہوئی۔ بے شک تفتان ایک ویرانہ تھا، جہاں قرنطینہ، پانی اور خوراک کی فراہمی مشکل تھی۔ معائنہ کیے بغیر مریضوں کو کراچی اور ملک بھر میں پھیل جانے دیا گیا۔ مجھ سے عاجز چیختے رہے کہ معاملہ فوج کے سپرد کیا جائے اور لاک ڈاؤن مگر تاخیر ہو گئی۔ فوج آئی توبہتری آئی۔ دوسرا بڑا حادثہ تبلیغی جماعت کا اجتماع تھا۔ مذہبی جماعتوں سے حکومت خوفزدہ رہتی ہے۔ ماضی میں زندہ رہنے اور من مانی پر تلے رہنے والے مذہبی لوگ کسی کی نہیں سنتے۔ تبلیغی اجتماع کا کوئی جواز نہ تھا۔ قیادت اس کی تلی رہی اور حکومت سہمی رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ تبلیغی قافلے نکلے اور ملک بھر میں وائرس پھیلانے لگے۔ سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات دیکھنے میں آئے: تبلیغی بھائیو ڈٹے رہو، مشکلات کی پرواہ نہ کرو۔ عمرہ سمیت بیرونِ ملک سے آنے والے تیسرا بڑا سبب بنے۔ہوائی اڈوں پر روک لیے جاتے مگر یہ لاپرواہ اور جواب دہی کے احساس سے بے نیاز سول ملازمین کے بس میں نہ تھا۔ آخر کار فوج کو دخل دینا پڑا۔ لاک ڈاؤن میں تاخیر ہو گئی۔ سندھ حکومت کو داد دینی چاہئیے۔ نسبتاً برق رفتاری سے جس نے کام کیا۔ اگرچہ بڑھ چڑھ کر کیے جانے والے اس کے دعوے درست نہیں۔ اتنی توجہ وبا کے انسداد پر نہیں، جتنی سیاست چمکانے میں۔بلاول بھٹو نے کہا: ایک بھی گھر راشن سے محروم نہ رہے گا۔ بچوں سمیت سڑک پہ بلکتی ہوئی عورت واویلا کرتی رہی کہ وہ اور اس کے بن باپ کے بچّے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔ اسے راشن دیا جائے یا مرنے کی اجازت۔ عمران خان کو ادراک میں تاخیر ہوئی۔ وہ متضاد مشورے دینے والے مشیروں میں گھرے تھے لیکن آخر کار جو حکمتِ عملی انہوں نے اختیار کی ، وہی بہترین ہے۔ مکمل نہیں، محتاط لاک ڈاؤن کہ لوگ بھوک سے مر نہ جائیں۔ مسافرٹرینیں بند کر کے انہوں نے مال گاڑیوں کی تعدا د بڑھانے، ٹرک اور ٹریلر چلانے کی اجازت دی۔ زیادہ سختی نہ کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ سندھ ایسی خطرناک صورتِ حال پیدا نہ ہوئی۔ سندھ میں بہت سے لوگ بھوک سے دوچار ہیں۔ پنجاب میں حالات قدرے بہتر ہیں کہ ’’اخوت‘‘ اور ’’الخدمت‘‘ سمیت بہت سی تنظیمیں راشن بانٹ رہی ہیں۔ اپنا تجربہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بیان کیا۔ان کے رضا کار جس محلے میں بھی سامان لے کر گئے، مقامی اہلِ خیر بھی بروئے کار آئے۔ بعض صورتوں میں اتنا ہی مزید راشن مہیا ہو گیا۔ بہت سے دردمند انفرادی سطح پر سرگرم ہوئے۔ ہمارے بھتیجے حسن نے پانچ ہزار دستانے بنوائے اور بانٹ دیے، خاص طور پر پولیس والوں میں، ناکوں پر جوبے یار و مددگار بیٹھے تھے۔ ہاتھ پر لگانے کا لوشن یعنی سینی ٹائزر بھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر منور کو اور کچھ نہ سوجھا تو پھل خریدے اور ناکے پر پولیس کے جوانوں کی خدمت میں پیش کر دیے۔ ڈاکٹر امجد کو اصرار ہے کہ سب مجبور اور محتاج لوگوں کو حکومت خوراک مہیا نہیں کر سکتی۔ فلاحی کام کا بیس سالہ تجربہ رکھنے والے آدمی کا کہنا ہے کہ مواخاتِ مدینہ کا ماڈل اختیار کرنا ہوگا۔ ہر کنبہ ایک یا ایک سے زیادہ خاندانوں کی ذمہ داری قبول کرے۔ سرکار کے پاس نہ اتنے وسائل ہیں اور نہ اتنا مضبوط انتظامی ڈھانچہ کہ تنہا وہ وبا سے نمٹ سکے۔ بحرانوں میں اقوام کے ردّعمل مختلف ہوتے ہیں۔احساس کارفرما ہو تو ملبے میں دبی ہوئی قومیں اٹھتی اور برق رفتاری سے اندمال کرتی ہیں۔ دوسری عالمگیر جنگ میں تباہ ہونے والے جاپان، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، فرانس اور بعد ازاں کوریا میں معجزے رونما ہوئے۔ نہ صرف تمام پچھلے نقصانات کا ازالہ ہوا بلکہ فروغ اور تعمیر کے نئے در کھلے۔ یہ کمال انسانی عزم کا ہے لیکن علم ہی عزم کو راستہ دکھاتا ہے۔ درد اگر نہ ہو تو آغازِ کار ہی ممکن نہیں۔ پاکستانی معاشرہ درد کی دولت سے مالا مال ہے مگر کچھ بے سمت بھی۔سمت نصیب ہو تو ابتلا سے قومیں اور بھی طاقتور بن کے ابھرتی ہیں۔ زخم ہی نہیں دھلتے بلکہ نئے جہان نمودار ہوتے ہیں۔صدیوں سے چلی آتی زنجیریں پگھل جاتی ہیں۔