لفظ ٹوٹے لبِ اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے بات ایسی ہے بتانے کی نہیں دنیا کو رو پڑے ہم بھی خریدار تک آتے آتے بات اب معیار کی بھی ہو گی اور بے وقعتی کی بھی۔ پہلے ایک دلچسپ اور خوبصورت بات پر بات کر لیتے ہیں۔ بات طرحدار اور ادبی ہو تو توجہ حاصل کرتی ہے اور ہم جیسے تشنگانِ ادب کو تو متاثر بھی کرتی ہے۔ اس سے غرض نہیں کہ بات کون کر رہا ہے۔ بس بات لطف دے جائے۔ وہی تقریر کی لذت والی بات ہے۔ جون ایلیا نے تو کسی اور تناظر میں کہا تھا کہ ’’بولتے کیوں نہیں مرے حق میں۔ آبلے پڑ گئے زبان میں کیا‘‘ مگر موجودہ تناظر میں چپ رہنا درست نہیں۔ داد تو بنتی ہے شہباز شریف فرماتے ہیں ’’عمران دماغ کی بجائے زبان سے معیشت چلا رہے ہیں۔ عوام آٹا چینی سے محروم شرح سود 14فیصد ہو گئی اور حکومت ہمارے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگا رہی ہے ’’غزل کے مطلع کے بعد بیتِ ثانی اس سے بھی زور دار ہے ’’جنگل نوکریاں دیں گے،سکون قبر میں ملے گا اور لگتا ہے خان صاحب پاکستان کو شداد کی جنت بنایا چاہتے ہیں‘‘ میں شہباز شریف کے بلیغ بیان کی وضاحت نہیں کروں گا کہ اچھے شعر کی تفسیر اس کے حسن کا بیڑہ غرق کر دیتی ہے لیکن ان کی بات میں تلمیح بہت خوبصورت آئی ہے کہ انہوں نے اپنے پاس سے تو کوئی الزام عائد نہیں کیا۔ خان صاحب کے اپنے ہی دعوے اور وعدے ان کے سامنے آئے۔ انہوں نے خود ہی اپنے کو رد کیا۔ انہیں تو کسی دشمن کیا کسی دوست کی بھی ضرورت نہیں پڑی کہ دشمن ان کا آسمان بنتا۔ شرارتی لوگ کچھ نہیں کرتے، صرف خان صاحب کی پرانی تقریریں نئی تقریروں کے ساتھ جوڑ کر چلاتے جاتے ہیں اور صنعت تضاد سے ایسی مزاحیہ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ ہنسی بھی آتی، غصہ بھی اور ترس بھی ’’اے سب آرزو کہ خاک شد‘‘ ’’لا کے مارا ہے کہاں تو نے زمانے مجھ کو‘‘ خان صاحب سوچتے تو ہونگے کہ: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ باقی معاملات تو ایک طرف میں نے اپنے دوست آصف محمود جو کہ اری گیشن میں آفیسر ہیں کے سامنے موجودہ حکومت کی بھینسوں اور مرغی انڈوں کے حوالے سے تعریف کی کہ وہ غریبوں میں تقسیم کر رہے ہیں کہ وہ بھینسوں کو پالیں اور روزگار پیدا کریں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے جو کچھ بتایا تو میری خوش فہمی ہرن ہو گئی۔ آصف محمود نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ پرانے منصوبے ہی کو زور دار انداز سے آگے چلایا گیا ہے۔ پتہ چلا کہ وہ خود بھی ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ افسر رہے ہیں اور ان کے انڈر لائیو سٹاک بھی آتا تھا اور وہ بھی اسی طرح اس منصوبے پر کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کافی کچھ بتایا۔ مثلاً بھینسیں رکھنے والے اکثر کٹے وغیرہ بیچ دیتے ہیں۔ انہیں ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ انہیں پالیں اور اس کے عوض انہیں 5ہزار روپے فی کٹا دیا جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ کٹا بڑا ہو جائے۔ اسی طرح بیوائوں کو بھینسیں وغیرہ بھی دی جاتی رہی ہیں۔ مختصراً بات یہ کہ وہی پرانے منصوبے کو حکومت نے شدومد سے نمایاں کر کے پیش کر دیا ہے جبکہ پچھلی حکومت اس کام کو روٹین سمجھتی تھی۔ معزز قارئین! بات یہ ہے کہ کسی کے احسن کام کو سراہنا تو چاہیے۔ اب فردوس عاشق اعوان اٹھ کر اگر یہ کہتی ہے کہ شہباز شریف لانگ شوز پہن کر شوبازی کرتے رہے ہیں یا پھر سرپر ہیٹ رکھ کر تماشہ لگاتے رہے ہیں تو ان دھواں چھوڑتی باتوں پر وہ آنکھیں کیسے یقین کر لیں جو بھی لاہور کی سڑکوں، پلوں اور دوسری تعمیرات کو دیکھ کر شہباز شریف کو یاد کرتی ہیں۔ خاص طور پر میٹرو اور اورنج ٹرین۔ پھر ڈینگی کے مسئلے کو اپنا مسئلہ بنانے کے ضمن میں۔ آپ کم از کم کچھ تو ایسا کریں کہ شوباز کی شہرت دھندلا جائے۔ حسد سے رشک بہتر ہے۔ اگر حکومتی ترجمان دشنام طرازی کو چھوڑ کر کوئی عملی کارنامہ سرانجام دے دیں تو عوام پرانوں کو خود ہی بھول جائیں گے۔ اگر محترمہ یہ کہیں گی کہ پچھلے ستر سالوں میں پہلی مرتبہ عوام اتنے زیادہ خوش حال و خوش و خرم ہیں تو مضحکہ خیز کی تعریف اور کیا ہو گی۔ جناب! بات منطق اور دلیل سے کریں، محبت اور تعلق میں اندھے ہو کر نہیں کہ: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئنہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے اب آپ خود ہی بتائیے کہ یہ کونسی راکٹ سائنس یا مسئلہ فیثہ غورث ہے کہ سمجھنے میں دقت پیش آئے کہ جب پٹرول، گیس، بجلی اور دوسری اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو مہنگائی بڑھتی ہے۔ اس پر یہ کہا جائے کہ میں مہنگائی کرنے والوں کو چھوڑوں گا نہیں تو پھر وہ تو آئی ایم ایف والے ہی بنتے ہیں یا پھر خود ٹیکس لگانے والے۔ ہاں یہ بات بھی غلط نہیں کہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی قابلِ دست اندازی ہے تو یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے اقدام تو سارے الٹ ہیں جس سے کاروبار میں رخنہ پڑتا ہے۔ اب خریدار کے شناختی کارڈ کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ غلط کارڈ کو ٹھیک کیسے ثابت کیا جائے۔ ایسے اقدام نے کاروبار ٹھپ کر دیئے ہیں۔ پہلے ہی کساد بازاری ہے اب تاجروں نے کالی پٹیاں باندھ لی ہیں اور احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ عمران خان نے اپنی غلطی تسلیم کی کہ آٹا اور چینی کے بحران میں ان سے غلطیاں ہوئیں اور یہ غلطیاں تو ان سے ہر جگہ تواتر سے ہو رہی ہیں۔ باجوہ صاحب کی توسیع کے کیس سے لے کر موجودہ جسٹس فائز عیسیٰ کے کیس تک کوئی نہ کوئی شوشہ، کوئی نہ کوئی تماشہ روٹین ہے۔ حوالے کے لیے ایک فروغ نسیم ہی کافی ہے۔ بزدار صاحب کا بیان کہ ڈیڑھ برس میں کرپشن کا کوئی کیس اس حکومت کے حوالے سے سامنے نہیں آیا۔ غالباط وہ آٹے چینی کے حوالے سے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے ضمن میں ساری باتوں کو صرف الزام قرار دے چکے۔ چلیے عثمان بزدار کی بات مان بھی لی جائے تو پھر اگر رشوت کے بغیر کسی محکمے میں کوئی کام نہیں ہوتا تو کس کو پکڑیں اور اس کرپشن کا الزام کس کے سر جائے گا۔ چلیے اس پر احتجاج بھی تو کوئی نہیں کرتا۔ لوگ بھی اس پریکٹس کے عادی ہو چکے۔ عوام کو چھوڑیں، اوپر کی سطح پر رونق لگی ہوئی ہے۔ ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ پختون خوا کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی ہو رہی تھی اور نئی بات یہ کہ اپوزیشن والے اسمبلی میں سپیکر لے آئے۔ یعنی لائوڈ سپیکر پر نعرے لگائے، اگر وہ ساتھ ایک ڈھول بھی لے آتے تو لوازمات مکمل ہو جاتے۔ یہ بھی اپنی جگہ درست اس ساری صورت حال میں بھی عمران خان کا کوئی سیاسی نعم البدل نہیں۔ یعنی سب سے تشویش ناک بات تو قحط الرجال ہے۔