اگر آپ سندھی‘ اردو اور بلوچی اسپیکنگ لوگوں کی روایات‘ رواداری‘ محبت و اخلاص اور منسکر المزاجی کے تمام رنگ ایک شخصیت میں ایک ساتھ جھانکتا دیکھنا چاہتے ہیں تو میں عموماً کہتا ہوں کہ برادرم نادر شاہ عادل کو دیکھ لیں۔ لیکن آج ایک اور ایسی شخصیت کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد احساس ہورہا ہے کہ بھائی اس صف میں تو برادرم اختر بلوچ بھی کھڑے تھے اور ہم بھی کیسے لوگ ہیں کہ ایسے انمول دوستوں کا ادراک بھی رکھتے ہیں‘ لیکن ان کی خوبیوں کو ان کی زندگی میں بیان نہیں کرتے۔ میں ان سے دوستی کا دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن جب بھی ملا۔ ان کی محفل میں بیٹھا۔ سب سے پہلے یہ احساس جاگزیں ہوتا کہ سامنے بات کرنے والا وسیع المطالعہ بھی ہے اور وسیع القلب بھی۔ بات کرنے اور اپنی بات سمجھانے میں اتنی دلیلیں‘ اتنے ریفرنس‘اتنی مثالیں کہ آپ خواہ کتنی فہم و فراست کے مالک کیوں نہ ہوں‘ ان کی بات اور ان کی دلیل کو ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ مطالعہ ان کا نشہ یا وہ کتب بینی کے عاشق یوں سمجھ لیں کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اختر بلوچ کے ہاتھ میں کوئی کتاب نہ ہو۔ موضوع کی کوئی قید نہ تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے زندگی میں جتنے بھی عشق کئے ہوں‘ لیکن کتابیں پڑھنے کا عشق سب پر حاوی تھا۔ کبھی کبھی میں بہت ہی پیارے دوست برادرم جاوید چوہدری سے کہتا ہوں کہ آپ کو کہانی لکھنی چاہئے۔ آپ ناول اور فکشن کے بندے ہیں۔ یہ کالم نویسی کیوں شروع کردی‘ لیکن ماننا پڑے گا کہ کالم میں کہانی کا چسکہ ڈال کر انہوں نے جو کمال دکھایا وہ ان کی تحریر کے مداحوں کی تعداد دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کالم نویسی کے میدان کا میلہ ہی لوٹ لیا۔ اختر بلوچ کی تحریر کی خوبی ہی یہ تھی کہ انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس پر ان کی دسترس ہر لمحے گواہی دیتی تھی۔ ایک دن کراچی میں مردم شماری کے موضوع پر بات ہورہی تھی۔ انہوں نے ایسے ایسے حقائق بتائے جو انہیں ازبر تھے۔ ہر علاقے کی آبادی‘ اس میں کون سی زبان بولنے والے کتنے رہتے ہیں‘ ان کے رجحانات کیا ہیں۔ ان علاقوں میں الگ الگ خواندگی کی شرح‘ بیروزگاروں کی تعداد‘ کہاں کیا مواقع ہیں‘ آبادی کو نہ جانے انہوں نے کتنی کیٹگریز میں بانٹا‘ کتنے حصوں میں تقسیم کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ انکشافات کررہے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی تصنیف میں بلکہ اپنے تمامتر رجحانات میں خود کو ’’کراچی والا‘‘ ثابت کیا۔ ان کی باتیں سن کر مجھے برادرم وسعت اللہ خان یاد آنے لگے جو اپنے مضامین اور کالموں میں ہر موضوع پر دنیا بھر سے جمع کی ہوئی ایسی ایسی معلومات ہی نہیں شماریات کے وہ اعداد شمار بتاتے ہیں کہ پڑھنے والے کو اندازہ ہوتا ہے کہ قلمکار نے موضوع کے ساتھ کس درجے انصاف کیا ہے۔ کبھی وہ محترم ارشاد احمد چغتائی مرحوم کے مانند قاری کو موضوع کی اہمیت سمجھانے کیلئے ہر اسرار رموز کا پردہ چاک کردیتے ہیں۔ اسی طرح اختر بلوچ کو بھی قدرت نے آنکھیں بھی دی تھیں اور دماغ بھی۔ ساتھ ساتھ کتاب کو گھول کر پینے کی وصف نے انہیں اپنی صف میں کھڑوں میں نمایاں کردیا تھا۔ ان پر کتاب کا عشق زندگی بھر سر چڑھ کر بولتا رہا۔ اسی لئے وہ کتاب کی خوشبو بہت دور سے سونگھ لیتے تھے۔ مختلف پبلیکیشنز سے شائع ہونے والی کتابوں کے حوالے سے وہ اتنے باخبر رہتے کہ نہ جانے کیسے کسی بھی انمول کتاب کی آہٹ سے ہی انہیں اس کی آمد کی خبر مل جاتی تھی۔ دنیا بھر میں کون سی کتاب سیل کے اعتبار سے کیا مقام رکھتی ہے‘ یہ تو کتاب کا رسیاہی جان سکتا ہے۔ میں نے ایک دن برادرم اختر بلوچ سے پوچھا کہ مطالعہ کیلئے آپ کا رجحان کیا ہے۔ کہنے لگے سچ پوچھیں تو یہ پیاس ایسی ہے کہ بجھنے کا نام نہیں لیتی‘ لیکن میرا خیال ہے کہ شاعری میں ان کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ میر سے لیکر غالب اور غالب سے لیکر جوش اور فیض تک کون سا ایسا قادر الکلام شاعر تھا جس کے نمایاں اشعار وہ حسب حال فرفر نہ پڑھنے لگتے ہوں۔ افسانہ‘ ناول اور سرگزشت بھی ان کے مطالعے کا پسندیدہ سیکٹر تھا۔ دوستوں کی محفل میں بحث چھڑ جاتی تو برادرم اختر بلوچ کسی سے پیچھے رہنے والے کہاں تھے۔ یہاں ان کا مطالعہ کام آتا اور احباب اس سے خوب لطف اندوز بھی ہوتے اور استفادہ بھی کرتے‘ کیونکہ ان کی ہر بات میں دلیل ہوتی تھی۔ برادرم عطا تبسم نے ان کے متعلق کیا خوب لکھا ہے کہ جب دوستوں میں بحث برائے بحث ہوجاتی تو وہ مسکراتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے‘ کیونکہ منکسر المزاجی ان کی شخصیت کی سب سے نمایاں خوبی تھی۔ بس یہ ان لوگوں میں سے تھے جو زندگی کسی جستجو میں گزارتے ہیں۔ میں نے بھی تعلیم کا سفر سندھ یونیورسٹی جامشورو میں طے کیا۔ اس لئے مجھے انہیں دیکھ کر رکھ رکھاؤ اور نشست و برخاست میں اپنے جامشورو والے دن یاد آجاتے تھے۔ ہم میں سے کون ہے جو موسیقی سے شغف نہیں رکھتا۔ جو راگ اور گیت نہیں سنتا۔ اختر بلوچ کا اس حوالے سے ذوق بڑا دلربا تھا۔ وہ گنگناتے بھی اور پسندیدہ گیتوں پر یقینا ان کے چہرے کی تازگی اور شادابی چغلی کھاتی کہ ان کا دل موسیقی کی لہروں سے جھوم اٹھا ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی انہوںنے بڑا کام کیا۔ وہ جلسوں‘ جلوسوں میں شرکت کرتے۔ ان کی تقریریں اور باتیں اس حوالے سے عام لوگوں کو بڑا انسپائر کرتی تھیں۔ اس موضوع پر کئی حوالوں میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹس تیار کرتے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کی توقیر کیلئے وہ کتنے حساس تھے۔ کتنے متحرک تھے کہ انہوںنے انسان دوستی کے حوالے سے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کیلئے اپنے مقالے کا موضوع بھی اردو ادب میں انسان دوستی رکھا۔ اختر بلوچ کا یہ مقابلہ اب ادھورا رہ جائے گا۔ ہمارے بہت ہی پیارے اور لائق دوست عطا تبسم نے جو جناب اختر بلوچ کو بہت قریب سے جانتے تھے مرحوم کی کچھ گزرے دنوں کی یادوں کو تازہ کیا ہے جنہیں میں یہاں نقل کررہا ہوں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے پیارے دوست‘ شاندار انسان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ (آمین)