زندگی واقعی اب روز بروز مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ خواجہ میر درد نے تو پہلے یہ ا شعار لکھے تھے یعنی زندگی اُس زمانے میں بھی ایسے ہی مشکل ہو گی جیسے اب نظر آتی ہے۔ دلی کی بربادی کا نوحہ جو خواجہ حسن نظامی یا پھر مصورغم علامہ راشد الخیری نے اپنی خوب صورت نثر اور انشاء پر دازی کے ذریعے تحریر کیا ہے وہ آج بھی اُردو ادب کے لیے ایک بڑے ادبی سرمایہ سے کم نہیں ہے ۔دلی کی بربادی تقریباً ہر دور میں ہوتی رہی اور وہ بھی زیادہ تر مسلمان بادشاہوں کے ہاتھوں، امیر تیمور سے لے کر نادر شاہ درانی تک سب نے دلی کو جی بھر کر لوٹا اور یہاں کے باشندوں کا قتل عام بھی جی بھر کر کیا۔ مسلمان بادشاہوں کی سزا ئیں بڑی سخت اور بعض مرتبہ بغاوت کو کچلنے کے لیے بڑی وحشیانہ ہوا کرتی تھیں جن میں مسلم ہندو کی کوئی تفریق نہ تھی۔ اب ہمارا ملک لٹ رہا ہے۔ عوام معاشی طور پر اتنے بد حال ہو چکے ہیں کہ گزشتہ دنوں پیاز چار سو روپے کلو تک فروخت ہوتا رہا عوام کو بہت زیادہ مہنگائی کی وجہ سے جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنامشکل لگ رہا ہے۔ حکمرانوں کو صرف اپنے اقتدار کے سوا اور کچھ نہیں چاہیے ملک کی بد قسمتی ہی کہہ لیں کہ قائد اعظم کے بعد کوئی بھی ایسا حکمران نہیں آیا کہ جو صحیح معنوں میں عوام کا درد رکھتا ہو اب گذشتہ ماہ ملک میں آنے والے سیلاب نے ہر طرف تباہی کی اَن مٹ داستانیں رقم کی ہیں۔ جنوبی پنجاب سمیت سندھ ، بلوچستان اور سوات ، کلام میں سیلاب نے لوگوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے کروڑ پتی لمحوں میں کنگال ہو گئے جو دوسروں کو خیرات دیا کرتے تھے اور آج خود لائنوں میں کھڑے ہو کر خیرات لے رہے ہیں۔ قدرت کے اپنے فیصلے ہوا کرتے ہیں اُس کی صفت جلالی جب جوش میں آتی ہے تو پھر سب کو روند کر لے جاتی ہے لیکن قدرت کے فیصلوں کے ساتھ ہماری اپنی نا قابل بیان غلطیاں اور کوتاہیوں بھی ایسی سنگین ہیں کہ صرف قدرت پر الزام نہین دھر سکتے۔ یہی سیلاب بلکہ اِس سے سینکڑوں گنا زیادہ سیلاب چین ، جاپان اور دیگر ممالک میں بھی ہر سال بارشوں کے موسم میں آتے ہیں لیکن وہاں پر اتنی زیادہ تباہی کیوں نظر نہیں آتی اِس لیے کہ اُن ممالک کی قیادت اپنے ملک اور عوام کے ساتھ بہت ہی بے لوث اور مخلص ہے اُنہوں نے رود کوہیوں اور سیلاب کے راستوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے سینکڑوں سمال ڈیمز بنا لیے ہیں جبکہ ہم نے اپنے ملک میںسوائے تین بڑے ڈیمز کے سواآج تک کچھ کیا ہی نہیں۔ چین کی مثال عرض کرتا چلوں کہ چین میں ہر سال بڑے پیمانے پر سیلاب آنے سے عوام بہت ہی مشکلات کا شکار تھے آخر اُن کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ سیلابی پانی جو پہاڑوں سے نیچے آکر تباہی مچاتا ہے اِ س کو ہر حال میں کنٹرول کرنا ہے اور اِن راستوں پر چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کرنے ہیں چین کی قیادت نے ملک میں ایمر جنسی نفاذ کر کے تمام بڑے اداروں کو الرٹ کر دیا کہ اب آپ کے سالانہ بجٹ میں پچاس فیصد کٹ لگا رہے ہیں اورآپ کو 15 سالوں تک اِسی محدود بجٹ پر گزارہ کرنا ہو گا کیونکہ قوم بڑی مشکل میں ہے قیادت نے جو بھی فیصلہ کیا اُسے تمام بڑے اور چھوٹے اداروں نے تسلیم خم کرتے ہوئے قبول کیا ۔17 سالوں کی دن رات محنت کے بعد چین نے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنا لیا جبکہ اُس کے اوپر درجنوں چھوٹے ڈیمز بھی بنا لیے آج چین امر یکہ کے سامنے بھی پوری قوت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے کیونکہ ا ب معاشی حالت مضبوط ہے چین نے سب سے پہلے اپنے کسان کو مضبوط کیا کیونکہ زراعت کسی بھی ملک کے لیے ریڑ ھ کی ہڈی کی طرح حیثیت رکھتی ہے اور اب ہم ذرا اپنا جائزہ لیں کہ ہمارے نا اہل اور انتہائی کرپٹ سیاست دانوں ، جا گیرداروں ، بیورو کریسی اور دیگر بڑے اداروں نے اپنے آپ کو ہر طرح سے خوشحال اور مضبوط بنا لیا جبکہ ملک اور عوام کو کمزور کر دیا آج ہمارے ملک کے سیاست دان جو 22 سال اقتدار میں رہ چکے ہیں وہ مزے کر رہے ہیں اور عوام ذلیل ہو رہے ہیں۔ نا انصافی کا بول بالا ہو چکا ہے ہر شخص صرف اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہا ہے اور جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ معاشرہ کیسے ترقی کر سکتا ہے ۔عدل معاشرے کی بقا اور سلامتی کے لیے ایک اہم ترین جزو ہے لیکن ہمارے ملک میں عدل اور انصاف سب سے ز یادہ کمزور ہیں کہ جس کی وجہ سے عوام ذلیل ہو رہے ہیں۔ انگریز نے اِس خطہ پر ایک 100 سال تک حکومت کی لیکن سیدنا فاروق اعظم ؓ کے سنہری حکومتی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلاتا رہا ہے۔ یعنی عدل اور انصاف کو ایک غیر مسلم نے بھی اتنی زیادہ تقویت دی کہ ایک 100 سال تک حکومت کرتا رہا اُ س نے قانو ن کی حکمرانی کو ترجیح دی اُس نے ہماری نفسیات کو بد نظر رکھ کر قانون کے مطابق فیصلے کئے اوراپنے دور میں امن قائم رکھا جبکہ ہم نے صرف شخصیات اور طاقت کو مد نظر رکھا ہم نے امیر اور غریب کا فرق آج تک قائم رکھا ہوا ہے ہمارے تھانوں میں ہماری کچریوں میں ہماری بیورو کریسی میں طاقت ور اور با اثر کے لیے علیٰحدہ قانون اورضابطے ہیں جبکہ غریب اور کمزور کے لیے سوائے ذلت کے اور کچھ نہیں رکھا۔ ایک غریب اپنے مسائل کے حل کیلئے زندگی بھر تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگاتا رہتا ہے اور ایک دولت مند اپنی دولت کے سہارے دنوں میں فیصلہ اپنے حق میں کرا لیتا ہے۔ خواجہ میر درد نے آج کے دور کی بھی خوب عکاسی کی تھی : زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اِسی جینے کے ہاتھوں مر چلے