ایک شخص نے سندھ کے ایک وڈیرے سے پوچھا کہ ’’سائیں آپ بار بار پارٹیاں کیوں تبدیل کرتے ہو؟‘‘ وڈیرے نے ذرا مسکرا کر ذرا موچھوں کو تاؤ دیکر کہا ’’بھائی! یہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا ہے۔ ہم کبھی پارٹی تبدیل نہیں کرتے۔ ہم توہمیشہ ایک ہی پارٹی میں ہوتے ہیں۔ وہ پارٹی جو اقتدار میں آتی ہے‘‘ سندھ میں پچھلے گیارہ برسوں سے سندھ کے ان وڈیروں پر ایک ایک پل اذیت کی طرح گذرا ہے؛ جو وڈیرے اقتدار سے محروم رہے ہیں۔ جب وہ وڈیرے اپنے مخالف وڈیروں کو پروٹوکول میں دیکھتے ہیں یا اپنے ڈیروں پر اپنے لوگوں سے اپنے مخالفین کے عیاشی کے قصے سنتے ہیں تو وہ شدید ڈپریشن محسوس کرتے ہیں۔ سندھ میں اقتدار سے محروم وڈیروں کی اکثریت نے تو طعنوں کے ڈر سے اپنے گاؤں جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ کراچی کے بنگلوں میں خودساختہ قید میں ہیں۔ وہ گاؤں جانا چاہتے ہیں مگر کس منہ سے جائیں؟ وہاں ضلعے کا ایس ایس پی تو کیا گاؤں کا ایس ایچ اور بھی ان کا فون اٹینڈ نہیں کرتا۔ سندھ کے وڈیروں کو اچھی طرح سے معلوم ہے وہ وقت گیا جب کھیت طاقت کی علامت تھے۔ اب طاقت کی علامت سرکاری حیثیت ہے۔ اس سرکاری حیثیت سے وہ سندھی وڈیرے عرصہ دراز سے محروم ہیں جو پیپلز پارٹی میں شامل نہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے چند مخالف وڈیروں کو سندھ حکومت میں ایڈجسٹ کردیا مگر سندھ کے بڑے وڈیرے جو بڑے آسرے میں تھے وہ انتظار کرکے تھک گئے ہیں۔ وہ سارے وڈیرے جو پیرپگارا کے زیر سایہ سندھ میں اپنی حکومت بنانے کے لیے بے چینی سے انتظار کرتے رہے وہ جب تھک گئے تب انہوں نے اپنے نمائندوں کو کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ اب پیپلز پارٹی سے بات چلاؤ کیوں کہ عمران خان کا سندھ میں تبدیلی لانے کا موڈ نظر نہیں آ رہا اور ہم کب تک اقتدار کا انتظار کرتے رہیں گے؟ اس طرح اب سندھ میں جی ڈی اے کے بکھرنے کے حالات پیدا ہوگئے ہیں کیوں کہ پی پی مخالف وڈیروں کے پی پی کے ساتھ مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ مذکورہ وڈیروں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے غیر اعلانیہ حامی بھرلی ہے اور پیپلز پارٹی نے بھی ان کو اپنی صفوں میں جگہ دینے کا وعدہ کرلیا ہے اب بات صرف اقتدار کے حصے کی ہے؟ پیپلز پارٹی ان وڈیروں کو سینیٹ میں کتنی سیٹیں دے گی؟ پیپلز پارٹی ان وڈیروں کو سندھ حکومت میں کتنی وزارتوں سے نوازے گی اور خاص طور پر اب جب بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں تب کس ضلع میں کس وڈیرے یا اس کے بیٹے جو ناظم بنایا جائے گا؟اس وقت سندھ حکومت اور سندھ کے وڈیروں میں مذاکرات کا وہ مرحلہ چل رہا ہے جس کو جوڑ توڑ کہتے ہیں۔سندھ میں اس وقت بڑے وڈیرے تو وہ جتوئی ہیں جوپیپلز پارٹی کے ساتھ مزاحمت کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ اب انہوں نے پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے لیے اپنے ’’بڑوں‘‘ سے بھی اجازت لے لی ہے۔ سندھ میں سادہ لوح انسان اب بھی ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ اب وہ کس منہ کے ساتھ اسٹیج پر آکر ’’جیئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگائینگے اور پیپلز پارٹی کے جن رہنماؤں کے خلاف وہ کل کرپشن کے الزامات عائد کر رہے تھے ان کی حق میں وہ کس طرح تقریریں کرینگے؟ ان سادہ مزاج افراد کو ا س بات کا علم نہیں کہ اقتداری سیاست میں پگڑی سر پر نہیں بلکہ بغل میں رکھی جاتی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اب وہ وقت نہیں ہے کہ لوگ ان کا بائیکاٹ کریں؟ یا ان کے خلاف تحریک چلائیں ۔ لوگ تو ان کیخلاف نعرے بھی نہیں لگائینگے۔ آخر ان کے قریب رہنے والے لوگوں کو بھی تو اپنے مسائل کو حل کروانا ہے۔ سندھ میں اب وہ دور نہیں ہے جب لوگ اصولوں کی سیاست پر جان قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ اب تو سب اقتدار کو سلام کرتے ہیں۔ سندھ میں آنے والے اس سیاسی زوال کا سبب کیا ہے؟ اس سوال پر ہم پھر کبھی پورا کالم تحریر کریں گے۔ اس وقت تو سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ بات صرف سندھ کی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام صوبوں کی صورتحال سندھ سے مختلف نہیں۔ اب اصولوں کی سیاست کہیں پر بھی نہیں ہوتی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سیاست عبادت سمجھی جاتی تھی۔ اب سیاست کو تجارت سمجھا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب سیاست عزت کی علامت تھی۔ اب سیاست دولت کمانے کا ذریعہ ہے۔ سیاست کو اصولوں سے نیچے گر کر اس کے وقار کو ختم کرنے کے بعد اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے معاشرے میںبہتری آئے گی تو اس کی سمجھ میں افسوس کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ جب ایک فرد ٹوٹتا ہے تب معاشرہ بکھرنا شروع ہوتا ہے۔اب وہ لوگ کہاں ہے؟ وہ لوگ اب کتابوں میں ہیں اور موبائل فون کے موجودہ کلچر میں کتابیں کون پڑھتا ہے؟ جب آفتاب غروب ہوتا ہے تب اندھیرا ہر سو چھاجا تا ہے۔ سندھ کی سیاسی فضاؤں میں ایک اندھیرا ہے۔ اس اندھیرے میں وڈیرے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملتے ہیں جس طرح چور آپس میں ملتے ہیں اور مل کر کارروائیاں کرتے ہیں۔سندھ میں وڈیروں کی نئی کھیپ کا پیپلز پارٹی میں آنا ایک طرف اس خیال کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی بڑی ہوشیاری سے سندھ کی سرزمین پر کسی نعم البدل کے لیے اسپیس پیدا کرنے نہیں دیتی۔ اس وقت پیپلز پارٹی ایک ایسا جال ہے جس میں وہ سب کو پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ سندھ کی سیاسی جھیل میں ہر نسل کی مچھلی اس جال میں آنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس صورتحال کو ہم اگر پیپلز پارٹی کی کامیابی نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ مگر کیا پیپلز پارٹی کی مذکورہ کامیابی سندھ کے سیاسی عروج کی دلیل ہے؟ ممکن ہے کہ بہت سارے اس عمل کو پیپلز پارٹی کا عروج تصور کریں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کا قتداری عروج سندھ کا سیاسی زوال ثابت ہو رہا ہے۔