چند دن پہلے سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ نظروں سے گزری جس نے کچھ حیران بھی کیا اور پریشان بھی۔ لکھنے والی ایک پڑھی لکھی اور بظاہر عقل و شعور رکھنے والی خاتون تھیں جو بچوں کی مشینی پیدائش کے عمل سے کافی متاثر دکھائی دے رہی تھیں کہ چلو اچھا ہے ہماری نا سہی ہماری آنے والی نسلوں کی بچے پیدا کرنے سے جان چھوٹ جائے گی اور پاکستان جیسے "مذہبی" ملک میں جہاں عورت کو محض بچہ پیدا کرنے کی مشین سمجھا جاتا ہے اب سائنس کی ذرہ نوازی کہ اس نے ہمیں حقیقتاً ایک مشین فراہم کر دی ہے جس سے کم از کم " ماں کے قدموں تلے جنت، ماں تجھے سلام، ماں کی دعا جنت کی ہوا، ماں کی عظمت ، ماں کی مامتا، ماں کا آنچل" وغیرہ وغیرہ جیسے روایتی اور گھسے پٹے جملوں سے نجات مل جائے گی کہ جو بوجھ ہماری ماؤں نے اٹھا اٹھا کے ہمیں پیدا کیا ہماری آنے والی نسلوں کی بیٹیوں ، بہنوں، بیویوں کو اس بوجھ اور جنجھنٹ سے مکمل آزادی ملنے والی ہے۔ خاتون کی خوشی اور سکھ کا سانس دیدنی تھا کہ چلو بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری تو پہلے ہی میڈیا اور تعلیمی اداروں کے سپرد ہو چکی اب پیدا کرنے کی اذیت سے بھی جان چھوٹنے والی ہے۔ لیکن میرا ذہن کچھ الجھ کے رہ گیا کہ کیا انسانیت واقعی ترقی کی اس معراج پہ پہنچ گئی کہ جہاں کرائے کی کوکھ اور سروگیسی کے بعد اب بچے بنانے والی فیکٹریوں میں مشینوں پہ بچے جنم لیں گے؟ کیا واقعی انسان کو اس بات پہ خوشیاں منانی چاہیے کہ اب ہمارے بچے مشینوں میں پیدا ہونگے؟ کیا واقعی مشین سے جنم لینے والے بچے کو ماں اتنا ہی پیار دے سکے گی جتنا اپنی کوکھ سے جنم لینے والے بچے کو دیتی ہے؟ پیدائش کے انتہائی تکلیف دہ اور جان لیوا عمل سے گزرنے کے بعد ماں جب اپنے بچے کو چھوتی ہے، خوشی اور آنسوؤں سے بھیگے ہوئے چہرے سے جب اپنی چھاتی سے لگا کے زور سے بھینچتی ہے تو ہر درد اور تکلیف لمحوں میں بھول جاتی ہے تو کیا مشین سے پیدا ہوئے بچے کو بھی وہ ایسا والہانہ پیار دے سکیگی؟ کیا واقعی یہ ترقی کی انتہا ہے یا زوال کی ؟ مجھ پہ سوچ کے کئی در وا ہوئے اور بے ساختہ علامہ اقبال کے ایک شعر کا مصرعہ یاد آگیا کہ : " محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی" اور مزید یہ کہ: " نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک یہ دور حاضر کی، یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے" اس پہ مزید بات کرنے سے پہلے کچھ زمینی حقائق پہ بھی نظر ڈال لی جائے تاکہ میری باتوں کو محض جذباتیت نا سجھا جائے۔ دنیا میں سالانہ لاکھوں عورتیں بچہ پیدا کرنے کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ایسی عورتوں کی شرح بہت زیادہ ہے جہاں زچگی کے دوران عورتیں اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ غربت ، بیروزگاری، مختلف بیماریوں ، ذہنی و جسمانی مشقت و اذیت کیساتھ ساتھ ناقص خوراک اور صحت کی ناکافی سہولیات کی بناء پر سینکڑوں عورتیں زچگی کے عمل کے دوران ہی دنیا کو خیر باد کہہ دیتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں مسائل کے انبار لگے ہیں اور ہر حکومت اپنی نادیدہ کامیابیوں کے اشتہار لگاتی نہیں تھکتی وہاں کون سا صاحب اقتدار طبقہ ہے جو واقعتاً عوام کے اصل مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کون ہے جو صحت اور اس سے منسلک مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ؟؟ یقیناً کوئی نہیں ! ہر آنے والی حکومت ایک بندر کا تماشا رچائے رکھتی ہے کہ بس ہاتھ میں ڈگڈگی بجائے جاتی ہے اور عوام کو نچائے جاتی ہے۔ ہسپتالوں ، صحت کے نظام کی زبوں حالی پہ کسی اور دن قلم اٹھاؤں گا لیکن ہم سب پہ بات واضح ہے کہ کس طرح غریب اور متوسط طبقے کے لوگ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں دھکے کھاتے ہیں اور معیاری علاج و ادویات پھر بھی میسر نہیں۔ ہمارے معاشرے کی غریب و مسکین عورتوں کو اچھی خوراک اور اچھا علاج ملنا ایک دیوانے کا خواب لگتا ہے کجا کہ زچگی اور اس سے جڑے مسائل کو حل کرنے کیلیے کوئی بڑا اور ٹھوس قدم اٹھایا جائے۔ اب تو عوام کے مسائل پہ بات کرتے ہوئے بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آخر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا؟ بہرحال اپنے وطن کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے مغربی ترقی واقعی حیران کر دیتی ہے کہ ہم اپنی ماؤں کو اچھی صحت و خوراک تک نہیں دے سکتے اور مغرب اپنی ماؤں کو مشینوں سے صحت مند بچے پیدا کر کے دینے لگا ہے۔ جسطرح باقی ٹیکنالوجیز نے ہمارے ہاں آتے آتے کچھ وقت لیا یہ جدید ٹیکنالوجی بھی ایک دن ہمارے ہاں آ ہی جائے گی اور پھر مشین سے پیدا ہوئے بچے کو دیکھنے کیلیے گھروں میں لوگ ایسے ہی جمع ہونگے جیسا کہ گزشتہ دور میں ٹی وی کو دیکھنے کیلیے محلے والے جمع ہوتے تھے۔ جسطرح ٹی وی کے بٹنوں اور رنگ برنگی سکرین کو بار بار چھو کر ہمارے بزرگ خود کو یقین دلاتے تھے کہ کیا واقعی ہم اتنے ترقی یافتہ اور امیر ہو گئے ہیں ؟ اسی طرح ہماری آنے والی نسلیں بھی دانتوں میں انگلیاں دبائے مشینی بچے کو بار بار چھو کر دیکھیں گی کہ واہ کیا ترقی کی ہے یقین نہیں آتا!! کہاں ہم ایک مشین بنانے کے قابل نا تھے لیکن مشینی بچے پیدا کرنے کے قابل ضرور ہو گئے ہیں ! شاید قارئین میری باتوں سے یہ سمجھیں کہ میں اس تکنیک کے خلاف ہوں لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ تجسس انسان کے اندر ایک ایسا جذبہ ہے کہ جس سے وہ طرح طرح کے تجربات کرتا ہے اور یہ تجربات بہت سی نفع بخش ایجادات کو جنم دیتے ہیں۔ سائنس نے آج تک جتنی ترقی کی ہے اسکے پیچھے یہ کھوج اور تجسسس کی حس ہی تھی جس نے انسان کو آگے سے آگے بڑھنے میں مدد کی ہے اور انسان کے اسی شوق اور تجسس نے اسے چاند سے آگے مریخ پہ پہنچا دیا ہے اور اب وہ اس دنیا سے کسی اور دنیا اور اس زمین سے کسی اور زمین کی تلاش میں ہے۔ مگر جس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا وہ یہ تھی کہ پچھلی صدی میں مغرب نے ترقی کے جس سفر کا آغاز کیا اسکا پہلا حملہ وہاں کے گھر اور خاندانی نظام پہ ہوا۔ مردہ پرستی اور سرمایہ دارانہ نظام نے جس طرح خاندانی نظام کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا(جاری ہے)