عربی میں’ فیل ‘کے معنی ہاتھی اور’ اصحاب فیل ‘سے مراد ہاتھی والے لوگ ہیں جبکہ’ عام الفیل ‘سے مُراد ہاتھی والا سال ہے ۔ تاریخ اسلام میں عام الفیل ایک منفر د اہمیت کا حامل سال ہے ۔ قرآن پاک میں اس پورے واقعہ پر ایک سورۃ جس کا نام ’الفیل‘ہے آخری پارے میں موجود ہے ۔ نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے صرف پچاس یا پچپن دن قبل مکہ مکرمہ میں عظیم الشان واقعہ رونما ہوا جسے تاریخ کے اوراق میں ’واقعہ اصحاب فیل ‘کے نام سے یاد رکھا گیا ہے ۔ 570 یا 571ء میں یمن کا بادشاہ ’ابرہہ‘ ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لئے مکہ پر حملہ آور ہوا جس کے ہمراہ ساٹھ ہزار فوج اورکئی ہاتھی بھی تھے ۔ اس کا سبب یہ تھاکہ چھٹی صدی عیسوی کی ابتداء میں نجران میں یمن کے مشرک حکمرانوں نے عیسائیوں پر جو ظلم وستم کیے اُس کا بدلہ لینے کے لیے حبش کی عیسائی سلطنت نے یمن پر حملہ کرکے وہاں کی حکومت کا خاتمہ کرکے پورے علاقے پراپنی حکومت قائم کرلی۔ اس فوج کا سپہ سالار ابرہہ تھا جو رفتہ رفتہ اس خطے کا خودمختار بادشاہ بن گیا۔ اس کا مشن عربوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کرنا تھا نیزعربوں کی تجارت کو ختم کرنا اور عرب میں عیسائیت پھیلانابھی اس کے اولین عزائم میں شامل تھا۔ اپنے اسی مشن کی تکمیل کی خاطر’ابرہہ‘ نے یمن کے دارالسلطنت ’صنعا ئ‘ میں ایک بہت ہی شاندار اور عالی شان ’گرجاگھر‘بنایا جسے مئورخین نے ’ الکلیس ‘کہا ہے ۔ ابرہہ یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجائے خانہ کعبہ کے یمن آ کر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں۔ حافظ ابن کثیر کے بقول ابرہہ نے اپنی اس خواہش کا نہ صرف علی الاعلان اظہار کیا بلکہ منادی بھی کرادی کی کہ عربوں کا رُخ اس گرجا گھر کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا۔ جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ ’کنانہ‘کا ایک شخص غیظ و غضب میں جل بھن کر یمن گیا،اور وہاں ابرہہ کے اس بڑے گرجا گھر میں پاخانہ کرکے اس کو نجاست سے غلیظ اور گندہ کر دیا۔ جب ابرہہ کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تووہ طیش میں آپے سے باہر ہو گیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے تک چین سے نہ بیٹھنے کی قسم کھالی اور اس مقصد کو فوری پورا کرنے کے لئے ساٹھ ہزار کی فوج لے کر جس میں ہاتھی بھی شامل تھے مکہ پرحملہ کی خاطر روانہ ہوپڑا۔ مکہ سے تین کو س دور المغمس نامی مقام ابرہہ نے اپنے ہراول دستے کو مکہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا اور اس کی فوج کا اگلا دستہ اہل مکہ کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کولوٹ مار کر کے چھین لایا اس میں دو سو یا چار سو اونٹ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دادا جناب سیدنا عبدالمطلب کے بھی تھے ۔ لوٹ مار کے بعد ابرہہ نے ایک قاصد کو مکہ بھیجا اور اس کے ذریعے پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر یعنی خانہ کعبہ کو ڈھانے آیا ہوں اگر تم نہ لڑو تو میں تمہارے مال و جان سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا۔ سیدنا عبدالمطلب کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچااور چونکہ آپ اس وقت مکہ مکرمہ کے سب سے بڑے سردار تھے ،چناں چہ آپ اس معاملہ میں گفتگو کرنے کے لئے ایلچی کے ہمراہ ابرہہ کے لشکر میں تشریف لے گئے ۔ جب ابرہہ نے حضرت عبدالمطلب کو دیکھا کہ ایک بلند قامت،رعب دار اور نہایت ہی حسین و جمیل آدمی ہیں جن کی پیشانی پر نورِ نبوت کا جاہ و جلال چمک رہا ہے تو صورت دیکھتے ہی وہ مرعوب ہو گیا۔ اور بے اختیار تخت شاہی سے اُتر کر آپ کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑا ہو گیا اور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیا کہ کہیے ، سردار قریش!یہاں آپ کی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے ؟ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو تمہارے لشکر کے سپاہی ہانک لائے ہیں ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دو۔ یہ سن کر ابرہہ نے کہا اے سردارِ قریش میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لئے آیا ہوں، آپ نے اس کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی؟جناب عبدالمطلب نے کہا کہ کعبہ میراگھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے ،وہ خود اپنے گھر کو بچا لے گا۔ سیدنا عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آئے اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کر مکہ سے باہر نکل جاؤ اور پہاڑوں کی چوٹیوں اور دروں میں چھپ کر پناہ لے لو۔ مکہ والوں سے یہ کہہ کرآپ خود اپنے خاندان کے چند افراد کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائی بے قراری اور گریہ و زاری کے ساتھ بارگاہ پروردگار میں اس طرح دعا مانگی۔ آپ کی مانگی گئی دعا تاریخ میں اشعار کی صورت میں زندہ وجاوید ہے ۔ سیدنا عبدالمطلب نے دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور خدا کی قدرت معجزہ کا انتظار کرنے لگے ۔ دوسرے روزجب ابرہہ اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اورمزدلفہ اور منی کے درمیان وادی محصب کے مقام ’ محسر‘ میں پہنچا تو اس کا اپنا ذاتی سب سے بڑا ہاتھی جس کا نام ’محمود‘تھا،ایک دم بیٹھ گیا۔ ہر چند مارا، مگر ہاتھی نہیں اٹھا اورنہ آگے بڑھا، اسی حال میں قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ہوا اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جن کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے ۔ ابابیلوں کے ان لشکروں نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زور وشور سے سنگ باری شروع کر دی کہ آن کی آن میں ابرہہ کے لشکر، اور اس کے ہاتھیوں کے پرخچے اڑ گئے ۔ ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار و جبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئی کنکری کسی ہاتھی سوار کے سرپر پڑتی تھی تو وہ اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ہوئی ہاتھی کے بدن سے پار ہو جاتی تھی۔ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچا ۔ جب ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کا کام تمام ہو گیا اور سب کے سب ختم ہو گئے توجناب سیدنا عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے اترے اور خدا کا شکر ادا کیا۔آپ کی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیااور تمام اہل عرب آپ کو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے ۔اور قبیلہ قریش کی عزت وتوقیر میں مزید اضافہ ہو گیا۔اس کے بعد پھر کسی غیر مسلم ریاست یا بادشاہ میں یہ جراَت نہ پیدا ہو سکی کی اس عظیم خانہ ٔ خدا کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھے ۔ (مآخذ ومصادر: ترجمہ کنزالایمان، سیرت انسائیکلو پیڈیا، تفسیر ابن کثیر، تفسیر صراط الجنان، تاریخ اسلام، تاریخ مکہ مکرمہ)