اگلے روز فرصت ملی تو میں اپنے نئے نویلے دوست مسٹر اور مسز سلیمان بجلی والا کے گھر گیا کہ وہاں جا کے میری جانوروں سے اُنس کی بڑی تسلی ہوتی ہے۔ گھر کیا ہے چڑیا گھر ہے۔ ہر قسم کے جانور‘ پرندے ‘ بلیاں‘ خرگوش ‘ مچھلیاں نہایت سلیقے سے خوش و خرم طریقے سے ان کے گھر میں رہتے ہیں۔ ایسی محبت اور توجہ جو دونوں میاں بیوی ان جانوروں پر دیتے ہیں اگر حکومتیں اتنا ہی خیال خلق خدا کا رکھتیں تو یہ دنیا جنت ہی ہوتی۔ دونوں میاں بیوی مجھے دیکھ کے خوشی سے کھل اٹھے اور کیوں نہ خوش ہوتے ان کے جذبہ حیوان دوستی کو اس دنیا میں سراہنے والا میرے سوا انہیں کوئی میسر ہی کہاں تھا۔ انہوں نے مجھے نہایت اخلاق سے اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ابھی رسمی خیر خیریت کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ کھلے سلائیڈنگ ونڈو سے دو خرگوش چھلانگ مار کر اندر آ گئے۔ سفید خرگوش تو مسز موتی والا کے سفید پائوں کی سینڈل کو سونگھنے لگ گیا۔ دوسرا اچھل کر نزدیک آیا تو میں نے میاں بیوی کی حوصلہ افزائی اور خوشنودی کے خیال سے پیار سے اس کی نرم و نازک پشت پر ہاتھ پھیرنا چاہا۔ مگر بدبخت نے موقع ہی نہ دیا۔ اچھل کر دور جا کھڑا ہوا۔اور اپنے گلابی گلابی دیدوں سے ایسے مجھے گھورنے لگا جیسے سمجھنا چاہ رہا ہو کہ میں پیار کی آڑ میں شکار کا مذموم ارادہ تو نہیں رکھتا۔ ’’بہت شرمیلا ہے‘‘ مسز سلیمان میرا قلق دور کرنا چاہا ’’ایسے حیا دار خرگوش اب کہاں ملتے ہیں؟‘‘میں نے تائید کی۔ تائید کیا تھی‘ تسلی تھی کہ فکر مند نہ ہوں‘ اب اتنا حساس بھی نہیں ہوں۔ ’’شکریہ‘ شکریہ سچ کہا آپ نے‘‘ دونوں میاں بیوی خوش ہو گئے۔ میں نے ان کی خوشی دیکھی تو ٹکڑا لگایا۔ ’’جناب!ایسی حیا تو اب لوگوں میں نظر نہیں آتی‘‘ اتنا سننا تھا کہ افریقی بلی مسز سلیمان والا کی گود سے کود کر دور جا بیٹھی۔ منہ ایسے سوجھا ہوا تھا جیسے بات میری اسے بری لگی ہو۔ پتا نہیں یہ میرا تاثر تھا یا واقعی معاملہ کچھ ایسا ہی تھا کہ بہرحال جانوروں میں انسان سے مانوس جیسی بلی ہے اتنا مانوس تو کتا بھی‘ طوطے بھی حتیٰ کہ گھر کی ملازمہ بھی برسہا برس کام کرنے کے باوجود نہیں ہوتی۔ یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ اس حیوان دوست جوڑے سے ہماری ملاقات کچھ ہی عرصہ پہلے زولوجیکل گارڈن میں ہوئی تھی‘ جہاں میں تفریحاً ایک خوبرو ہرن کو جنگلے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر چیونگم کی آفر کر رہا تھا۔ یک لخت عقب سے کوئی زور سے ہنسا۔ مڑ کر دیکھا تو یہی میاں بیوی کھڑے تھے اور دلچسپی سے مجھے دیکھ رہے تھے جیسے میری سادگی سے لطف لے رہے ہوں۔ ’’برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں؟‘‘مسٹر سلیمان والا بولے جو اس وقت میرے لیے بہرحال اجنبی تھے۔ ’’آپ کی تعریف؟‘‘ میں نے پوچھا اس پر انہوں نے اپنا اور اپنی اہلیہ کا تعارف کرایا۔ میں نے بھی جواباً انہیں اپنا نام بتایا اور پھر سلسلہ کلام جاری رکھنے کے لئے کہا:’’جی آپ کچھ کہہ رہے تھے۔‘‘ اصل میں جانوروں سے ہم دونوں میاں بیوی کو کچھ پیدائشی سی دلچسپی ہے۔ کیوں بیگم میں غلط تو نہیں کہہ رہا؟‘‘انہوں نے تائید کے لئے اپنی اہلیہ کی طرف دیکھا۔ ’’ہنڈرڈ پرسنٹ ایسا ہی ہے‘‘ بیگم نے ان کی تائید میں سر ہلایا۔ ’’تو ہم جانوروں کی سائیکلوجی کو بھی تھوڑا بہت سمجھتے ہیں۔ آپ جو ہرن کو چیونگم دینا چا رہے تھے اور وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ پتا ہے کیوں؟‘‘ ’’جی آپ فرمائیں‘‘ میں نے نہایت اشتیاق سے جاننا چاہا۔ ’’یہ جو ہرن ہے نا۔ یہ صومالیہ کا ہے اور صومالیہ کے ہرن کی خاصیت ہی یہ ہے کہ یہ اپنے دانتوں کی صفائی کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ چیونگم کی مٹھاس دانتوں کو کیڑے لگانے میں کتنی تیز ہوتی ہے۔ تو جب آپ اسے‘ یعنی اس بے چارے ہرن کو…’’انہوں نے جنگلے کے پیچھے کھڑے ہرن کی طرف اشارہ کیا جو نہایت توجہ سے مسٹر سلیمان والا کی ’’ہرن شناسی‘‘ پر مبنی معلومات افزا گفتگو سن رہا تھا اور تائید و تردید کی تکنیکی وجوہ کی بنا پر پوزیشن میں نہ تھا۔ ’’چیونگم آفر کر رہے تھے‘‘ سلیمان والا نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا:’’تو میں اسی لئے ہنس رہا تھا کہ ہم لوگ اپنے دانتوں کی طرف سے لاپروا ہوتے ہی ہیں۔ یہ بھی انہیں جانتے کہ…ان کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ صومالی ہرن آ گے بڑھا اور جنگلے سے اپنا سر رگڑنے لگا۔ مسز سلیمان بے تابانہ آگے بڑھیں اور ہاتھ جنگلے کے اندر ڈال کے پیار سے ہرن کے سر اور پشت پر پھیرنے لگیں۔ ایسا کرتے ہوئے بار بار یہی ان کے منہ سے نکلے جا رہا تھا: ’’ہائے میرا بچہ‘ ہائے میرا…‘‘ تب مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ جوڑا لاولد نہیں‘ ان کا اپنا ایک بچہ بھی ہے جو گھر میں اس انتظار میں ہے کہ ممی پاپا آئیں اور کسی اچھی بات پر بے تابانہ اسے سینے سے لگا کر کہیں: ’’ہائے میرا بچہ!‘‘