مکرمی!اسرائیل نے جب سے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیا ہے دْنیا بھر میں اس کی مخالفت ہوئی۔ جنرل اسمبلی میں امریکہ کے اقدام کے خلاف قرارداد بھرپور طریقے سے منظور کی گئی، بہت کم ممالک نے مخالفت کی، اِس سے پہلے امریکہ سلامتی کونسل میں قرارداد کو ویٹو کر چکا تھا تاہم بعد میں جب معاملہ جنرل اسمبلی میں پہنچا تو وہ بے بس تھا اور مخالفانہ قرارداد کی منظوری کے بعد صدر ٹرمپ نے کھل کر کہا کہ جن ممالک نے ہمارے خلاف ووٹ دیا امریکہ اْن کی امداد بند کر دیگا۔ امریکہ کے اس اقدام کے نتیجے میں فلسطین میں جو لاوا پک رہا تھا اب وہ پھٹ رہا ہے اور نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تازہ لڑائی کیا رْخ اختیار کرے گی اور یہیں سے ایک نئی مزاحمتی تحریک بھی جنم لے سکتی ہے، کیونکہ سابق امریکی صدر کے دور میں مسئلہ فلسطین کے حل کا دو ریاستی آپشن سرے سے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اپنی توسیع پسندی کا سلسلہ ترک نہیں کیا اور اقوام متحدہ نے جن فلسطینی علاقوں میں مزید یہودی بستیاں آباد کرنے سے روکا۔ فلسطینیوں کو ایک چھوٹے سے علاقے میں محصور کر کے رکھ دیا گیا ہے،52 برس پہلے اسرائیل نے مسجد ِ اقصیٰ پر قبضہ کر لیا تھا اور دو روز پہلے جب اس قبضے کا جشن منایا جا رہا تھا تو مسجد ِ اقصیٰ کے ایک حصے میں آگ لگی ہوئی تھی، اب تازہ کشیدگی کا دائرہ بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ایسی صورتحال میں عالمی برادری کا موثّراور فعال کردارادا نہ کرنا انسانیت دشمنی ہے۔ اگر اسرائیل کو لگام نہ ڈالی گئی تو فلسطین میں کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عرب لیگ اور او آئی سی بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے اور فلسطینیوں کی حمایت میں عرب اور اسلامی دنیا کی موثر آواز اٹھائے۔ (جمشید عالم صدّیقی‘ لاہور)