میر تقی میر کہتے ہیں جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کو کَل اس پہ یہیں شور ہے پھِر نوحہ گری کا آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت؟ اسباب لْٹا راہ میں یاں ہر سفری کا سر سے غرور، تاج، شور اور نوحہ کی نسبتیں، ظاہر ہیں۔ مگر "اس(سر) پہ یہیں" کا جواب نہیں! اور اسباب کے لْٹنے سے مْراد، آخر کیا ہے؟ یہ نہ سمجھا جائے کہ اس سے غرض، صرف اسباب ِدنیا یا اعظا، قْوٰی اور حواس ِخمسہ کی فنائیت کا بیان ہے۔ وہ بات آتش نے کہی ہے بدن سا شہر نہیں، دِل سا بادشاہ نہیں حواس ِخمسہ سے بڑھ کر، کوئی سپاہ نہیں میر کا مقصود اس سے زیادہ ہے۔ ہستی سے نیستی کا سفر، آدمی کے سارے حوصلے اور ارادے توڑ کر رہتا ہے۔ تمام منصوبے اور نقشے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور خواہشوں اور حسرتوں کی بھی پوٹ، چھْوٹ ہی جاتی ہے۔ کیوں نہ ہو، سوال ہی نہیں، جواب بھی یہ ہے کہ دیکھو جسے، ہے راہ ِفنا کی طرف رواں تیرے محل سرا کا، یہی راستہ ہے کیا؟ مشرق و مغرب، شمال و جنوب، بالا و پست، آگے پیچھے ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ کھْلی آنکھیں، یہ تباہی دیکھ رہی ہیں اور ع طْوطی کو شَش جہت سے، مقابل ہے آئینہ زمانے کا تسلسل، ثبوت ہے اس کا کہ دنیا بھی، ایک خود کار مشین کے مانند، چلے جا رہی ہے۔ اس کے کَل پْرزوں کو بتدریج، انسان کی دخل اندازی البتہ بگاڑتی رہی ہے۔ دھرتی نے جی کھول کر اپنے خزانوں سے ہمیں بہرہ ور کیا۔ آسمان سے بھی ابر ِکرم، کہاں کہاں نہیں برسا! ہوائیں چلی ہیں اور ایسی کہ بقول ِشخصے، گرد ِملال بھی دھو کر گئیں۔ لیکن اس ساری بخشش کا، جواب کیا دیا گیا؟ زمین تو زمین، فضا تک آلودہ کر دی گئی۔ ذمے داری اس کی، صرف کمزور اور غیر ترقی یافتہ ملکوں کے سر نہیں منڈھی جا سکتی۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ قیامت، کب آئے گی؟ جواب یہ ہے کہ قیامت آ جائے گی، جب خْدا کے بتائے ہوئے سارے قوانین کو توڑ لیا جائے گا اور اس دنیا کی پوری طرح تخریب کر لی جائے گی۔ عالمی طاقتیں جانتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے امکانات سدا سے موجود ہیں مگر اب بات امکان سے زیادہ حقیقت کو پہنچ رہی ہے۔ "مہذب" دنیا کو، اگر یقین ہو جائے کہ نیوکلیئر جنگ کے اثرات، صرف ان دو ممالک تک محدود رہیں گے، تو فوراً دوڑ شروع ہو جائے دونوں کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے کی! ان کے اپنے حلوے مانڈے میں جب تک کھنڈت نہ پڑے، ان کی بلا سے! سائنس کہتی ہے کہ آدمی پتھر کے زمانے سے اْبھرا ہے۔ اس پر یقین رکھنے والے، ذرا غور کریں کہ وحشی وہ تھے، جنہوں نے باہم زندگی گزارنے کی طرح ڈالی یا یہ ہیں، جو گلوبل ولیج کے دعوے بھی کرتے ہیں اور اپنی دنیا جدا رکھتے ہیں! جدید "تہذیب" نے انسان کو، منافق، دوغلا اور فریبی بنا دیا ہے۔ اس کی وحشت، اب پردہ دار ہو گئی ہے! ماسٹر کی بات اگر مانیں، نتیجہ ہے یہی اب ہیں اچھے جانور، پہلے بْرے انسان تھے تھا جس کا انتظار حفیظ جالندھری مرحوم بہت اچھے شاعر اور بڑے دلچسپ آدمی تھے۔ بزرگوں پر خْردہ گیری اور ہم عصروں سے مقابلے بازی، دوسرے شاعروں نے بھی کی ہے۔ مگر حفیظ صاحب چھیڑ چھاڑ، اپنے خْردوں سے بھی کیا کرتے۔ نتیجتاً، جوابی کلوخ اندازی، ان پر کی جاتی۔ پیرانہ سالی میں، جب انہوں نے شادی رچائی تو ابن ِانشا نے لکھا کہ ذیل کا شعر، حفیظ صاحب نے اپنے ولیمے پر کہا ہے جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں یہ تو خیر لطیفہ تھا۔ کِبر سِنی میں جو شعر انہوں نے واقعی کہا، یہ ہے یہعجب مرحلہ ٔ عْمر ہے یا رَّب! کہ مجھے ہر بْری بات، بْری بات نظر آتی ہے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا وقت، قوموں پر بھی آتا ہے؟ تین سال پہلے، امریکن عوام کا حتمی انتخاب، ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔ اگلے سال کے انتخابات کی تیاریاں، اب زور و شور سے جاری ہیں اور ان کی مخالف جماعت کے امیدوار، ایک ایک کر کے چھَٹتے جا رہے ہیں۔ چَھٹائی کو عموماً، صفائی سے تعبیر کیا جاتا ہے، مگر یہاں معاملہ، برعکس ہے! یقین ہے کہ حتمی امیدوار، اسٹیبلشمنٹ کا منظور ِنظر، یعنی سب سے نالائق ہو گا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ نے جن پر "سلیپی جو" یعنی "نیم خوابیدہ" کا لقب، چسپاں کر دیا ہے، ڈیموکریٹ امیدوار ہوں گے۔ آٹھ سال اوباما کی انہیں نیابت حاصل رہی، لیکن ایک پھَلی بھی انہوں نے پھوڑ کے نہ دی۔ بات مگر اس سے آگے کی ہے۔ جنس ِمخالف پر دست درازی کے جو الزامات، ٹرمپ پر لگائے گئے ہیں، وہ جو بائیڈن پر بھی لگائے جا رہے ہیں۔ اس معاملے میں موصوف ٹرمپ کے، کہنا چاہیے کہ ہم جنس ہیں! معاملہ یہاں بھی نہیں رْکتا۔ یہ صاحب خود کو عیسائی صیہونی قرار دیتے ہیں۔ اس ترکیب سے سر چکرا نہ جائے، سو وضاحت سْن لیجیے۔ ایک قوم دنیا میں اس قماش کی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ، یہودیوں سے بڑھ کر اسرائیل کے حامی ہیں۔ ان حضرت کی روشن خیالی اور کشادہ ذہنی کا سارا کارخانہ، اسرائیل پر پہنچ کر ٹھپ ہو جاتا ہے! جو بائیڈن کو گندم نما جو فروش کہنا چاہیے اور بقول ِرومی ع چہ بَرَد گندم نمائی ِجو فروش؟ (گندم دکھا کر جو بیچنے والا سے کچھ بعید نہیں)۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بھی ہیں، بے نقاب ہو چکے۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔ افغانستان سے امریکن فوج کو نکالنے میں، اسٹیبلشمنٹ میں ان کے سوا، شاید ہی کوئی مخلص ہو۔ تین سال روس کے ساتھ سازش کا الزام، ان کے سر پر لٹکتا رہا۔ یہ دوبارہ جیت گئے اور کسی معاملے میں دوبارہ نہیں نکڑ کی تو ان کا دَف مارنا کا منصوبہ پہلے ہی تیار ہو گا۔ غرض، جو تماشا شروع ہو رہا ہے، پچھلے تماشوں کا تسلسل ہے اور کوئی بھی واسطہ اسے، حقیقت سے نہیں۔ جو سو رہے ہیں، سوتے رہیں، جو رو رہے ہیں روتے رہیں! شوری شْد و از خواب ِعدم چشم کشْودیم دیدیم کہ باقیست شب ِفتنہ، غنْودیم (شور نے خواب ِعدم سے، ہمیں جگا دیا۔ یہ دیکھ کر کہ وہی پرانا فتنہ ہے، ہم دوبارہ سو گئے)