1۔کیا وزیر اعلیٰ بزدار وزیر اعظم کا ذاتی انتخاب ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ وہ بزدار کو ذاتی طور پر کتنے عرصہ سے جانتے ہیں؟ 2۔ اگر ذاتی انتخاب نہیں تو قوم کیا یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ یہ نام کس نے تجویز کیا اور کس فورم پر یہ تجویز منظور کی گئی؟ 3۔ وزیر اعظم کو یاد ہو گا کہ ستمبر 2018ء کے پہلے ہفتے میں انہوں نے قوم کو بتایا تھا کہ ناصر درانی پنجاب پولیس کو اسی طرح سدھاریں گے جس طرح کامیابی کے ساتھ کے پی میں پولیس کو تبدیل کیا تھا۔ اسی ہفتے ٹوئٹر پر بھی وزیر اعظم نے یہی اعلان کیا۔ سترہ ستمبر کو ناصر درانی نے چارج لیا۔ بائیس دن بعد مستعفی ہو گئے۔ چونکہ وزیر اعظم نے ان کی تعیناتی پر قوم کو اعتماد میں لیا تھا تو کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ ان کے چلے جانے پر بھی قوم کو اعتماد میں لیتے؟ 4۔ ناصر درانی کے بعد وزیر اعظم نے پنجاب پولیس کی کایا کلپ کی ذمہ داری کس شخصیت پر ڈالی ہے؟ 5۔ کیا وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ پنجاب پولیس بدتر سے بدترین ہو رہی ہے؟ 6۔ ’’وزیر اعلیٰ پنجاب(شہباز شریف) ایک ریفارمر ہیں! کرپشن کے خلاف شہباز شریف نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ شہباز شریف نے تعلیم‘ صحت‘ ٹرانسپورٹ‘ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ‘ انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبوں میں مثالی منصوبوں کا آغاز کر کے ایک قابل ذکر معیار مقرر کر دیا ہے! وزیر اعلیٰ پنجاب (شہباز شریف) کے لئے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ اربوں ڈالر کے منصوبے شفافیت کے ساتھ مکمل کئے۔ شہباز شریف کی زبردست پرفارمنس کی وجہ ہی سے مسلم لیگ 2013ء کا الیکشن جیت پائی۔ سینکڑوں ہزاروں اساتذہ میرٹ پر رکھے گئے۔ شہباز شریف کی کارکردگی دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے لئے رول ماڈل ہے‘‘(روزنامہ نیشن سترہ فروری 2018ء ‘ رونامہ دی نیوز اٹھارہ فروری 2018ئ) کیا وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ایک اہم رکن ڈاکٹر عشرت حسین کی اس رائے سے متفق ہیں؟ اگر وہ متفق ہیں تو کیا اعتراف کریں گے؟ اگر وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ یہ رائے غلط اور مبنی بر خوشامد ہے تو ایسے شخص کو انہوں نے ایک انتہائی اہم ذمہ داری کیوں تفویض کر رکھی ہے؟ 7۔ کیا وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین جنرل پرویز مشرف کے عہد میں بھی سول سروسز ریفارم کمیشن کے سربراہ تھے؟ کیا وزیر اعظم نے اُس کمشن کی کارکردگی اور رپورٹ ملاحظہ فرما لی ہے؟ 8۔ اگر ڈاکٹر عشرت حسین نے پرویز مشرف کے عہد میں قائم سول سروسز کمیشن کے سربراہ کے طور پر قابل عمل رپورٹ تیار کر لی تھی تو اس رپورٹ کی موجودگی میں نئے کیمشن کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر ڈاکٹر عشرت حسین کی کارکردگی اس وقت مایوس کن تھی‘ تو موجودہ حکومت دوبارہ اُسی سوراخ سے کیوں ڈسی جا رہی ہے؟ 9۔ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ جس بیورو کریسی کے حصار میں وہ محصور ہیں وہ سول سروس کے ایک مخصوص گروہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ مخصوص گروہ بھی ایک خاص علاقے اور خاص لسانی حوالے سے ممتاز ہے؟ 10۔ کیا وزیر اعظم آگاہ ہیں کہ اس وقت وفاقی سیکرٹریٹ میں سول سروس کے اہم گروہوں(پولیس سروس‘ پاکستان آڈٹ اینڈاکائونٹس سروس‘ انٹرنل ریونیو سروس‘ کسٹمز سروس‘ کامرس اینڈ ٹریڈ سروس‘ انفارمیشن سروس‘ ریلوے سروس‘ پوسٹل سروس) کی نمائندگی‘ بالخصوص سیکرٹری سطح پر‘ نہ ہونے کے برابر ہے؟ اور یہ اس حوالے سے بیورو کریسی کا بدترین دور ہے؟ 11۔ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ سول سروس ریفارمز کمیشن میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور چیئرمین ایف بی آر جیسے اہم اداروں کے سربراہ موجود نہیں؟ اورکمیشن کے ارکان‘ زیادہ تر‘ ایک ہی سروس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیا جناب وزیر اعظم سول سروس کی کمپوزیشن اور شعبہ جاتی اقسام سے آگاہ ہیں؟ 12۔ کیا وزیر اعظم کے علم میں ہے کہ گزشتہ حکومت نے جو اہم منصوبے شروع کئے تھے اور نصف مکمل ہو گئے تھے‘ ان میں ایک اہم ترین منصوبہ دارالحکومت کی ایکسپریس وے کی توسیع و تعمیر کا تھا؟ یہ منصوبہ آدھے میں موجودہ حکومت نے منسوخ کر دیا ہے۔ کیا وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ یہ دارالحکومت کی مصروف ترین شاہراہ ہے اور لاکھوں افراد روزانہ کس تکلیف و اذیت میں مبتلا ہیں؟ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ یہ موجودہ حکومت کے خلاف نفرت کا بڑھتا ہوا ذریعہ ہے؟ 12۔ کیا وزیر اعظم آگاہ ہیں کہ اس اہم ترین شاہراہ پر جو جہلم اور چکوال سے لے کر گوجر خان تک اور دیگر سینکڑوں بستیوں کا دارالحکومت سے واحد لنک ہے‘ لاکھوں ٹرکوں کی آماجگاہ ہے؟ چیف کمشنر اسلام آباد اس بحران سے مکمل بے نیاز ہے اور کسی شہری کا چیف کمشنر سے بات کرنا ناممکن ہے؟ 14۔ کیا وزیر اعظم کے علم میں ہے کہ دارالحکومت کے نئے ایئر پورٹ تک جانے کے لئے میٹرو کا منصوبہ ان کی حکومت نے نامکمل چھوڑ دیا ہے اور اربوں روپے کا کام جو ہو چکا تھا‘ ضائع ہو گیا ہے؟ 15۔ کیا جناب وزیر اعظم قوم کو بتانا پسند فرمائیں گے کہ مشیر اطلاعات وفاقی سیکرٹری اطلاعات اور افتخار درانی سربراہ میڈیا ٹیم کی موجودگی میں جناب یوسف بیگ مرزا کے فرائض کیا ہیں؟کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ان صاحب کے خلاف نیب میں 2397ملین روپوں کے تصرفِ بے جا (Misappropriation) کا کیس چل رہا ہے۔ اس ضمن میں نیب نے وزارت اطلاعات کو دو خطوط(8اپریل اور 12اپریل 2019ء ) بھی لکھے ہیں۔ کیا وزیر اعظم قوم کو اس تعیناتی کا جواز بتانا پسند کریں گے اور یہ بھی کہ یہ صاحب کتنا مشاہرہ اور کون کون سی مراعات استعمال کر رہے ہیں؟ 16۔ کیا وزیر اعظم نے یہ خبر میڈیا میں پڑھی کہ ان کے ایک وزیر ایک ٹھیکیدار کے گھر رہتے ہیں۔ ان کے جملہ اخراجات ٹھیکیدار برداشت کرتا ہے۔ اس ٹھیکیدار کے خلاف ایف آئی اے نے سترہ کروڑ روپے کے کنٹریکٹ میں فراڈ کا مقدمہ چلا رکھا ہے۔ اس کے باوجود اس ٹھیکیدار کی کمپنی کو پشاور میٹرو میں بارہ ارب روپے کا ٹھیکہ دے دیا گیا؟ کیا وزیر اعظم قوم کو اس ضمن میں اعتماد میں لیں گے؟ 17۔ کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ وہ دوست نوازی(کرونی ازم) کے حوالے سے وہی کچھ رہے ہیں جو گزشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں؟ 18۔ سعودی حکومت نے کشمیر کے حوالے سے جس سردمہری کا برتائو کیا ہے‘ اس کے بعد کیا یہ مناسب تھا کہ وزیر اعظم سعودی ولی عہد کے طیارے کی پیشکش قبول کرتے؟ کیا وزیر اعظم شکریہ ادا کر کے یہ پیشکش نامنظور نہیں کر سکتے تھے؟ کیا پاکستانی قوم کے لئے یہ حقیقت باعث فخر ہے کہ ان کا حکمران‘ کسی دوسرے سربراہ کے ذاتی احسان تلے دبا ہوا ہو؟ 19۔ کیا وزیر اعظم قوم کو اعتماد میں لیں گے کہ جنوبی پنجاب کے الگ صوبے کا وعدہ کب پورا کر رہے ہیں؟ یہ سب قومی اہمیت کے وہ سوال ہیں جو پارلیمنٹ میں پوچھے جانے چاہئیں تھے۔ مگر چونکہ پارلیمنٹ ایک کینچوے سے مشابہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہے۔ کچھ ارکان موجودہ حکومت کو اور کچھ گزشتہ حکومتوں کو بچانے میںمصروف ہیں‘ اس لئے وزیر اعظم کی خدمت میں گزارش ہے کہ ان سوالوں کا جواب براہ راست قوم کو دے کر اپنی پوزیشن واضح فرما دیں۔