اسلام آباد(خبر نگار) سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی کے استعمال کی قیمت کے تعین اور وصولی کے بارے قانون سازی کیلئے حکومت کو آخری مہلت دیتے ہوئے جمعہ تک وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں کو مجوزہ قوانین کے مسودے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پانی کا معاملہ کسی ایک حکومت کا نہیں، زیر زمین پانی کی قیمت وصولی پر تمام حکومتوں کو آخری موقع ہے ، حکومتیں قانون کا مسودہ پیش کریں ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو ذمہ داری لینی چاہیے ، قانون کے بل کا مسودہ نہ آیا تو ایکشن لینگے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بیرون ملک کرکٹ ٹیم کے کپتان کو گاڑی دھونے کے دوران پانی ضائع کرنے پر جرمانہ ہوتا ہے ، پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے 6 ماہ میں قانون نہیں بن سکا، حکومت کی پہلی ترجیح پانی کا تحفظ ہونا چاہیے ، ہم پانی کے بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں، لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد و خیبر پختونخوا نے بتایا کہ قانون کا مسودہ تیار کر لیا ہے ۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری نے کہا کہ پنجاب حکومت بھی مسودہ تیار کر چکی ہے جس پر عدالت نے ہدا یت کی کہ پنجاب حکومت سمیت تمام حکومتیں جمعہ تک اس کو جمع کرائیں۔ عدالت نے گنے کی کاشت کاروں کو فصل کی رقوم کی عدم ادائیگی کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے پتوکی دریا خان اور برادرز شوگر ملز کے چیف ایگزیکٹیو افسران کو طلب کرلیا ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر کین کمشنر اور شوگر ملز کے سی ای اوز پیش نہ ہوئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہونگے ۔ کیس کی مزیدسماعت 12 جون تک ملتوی کردی گئی۔ سپریم کورٹ نے نیم سرکاری سکول کے ملازمین کو سرکاری سکولوں کے پے سکیل کے مطابق تنخواہیں دینے کا ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے فیصلے کے خلاف حکومتی اپیل مسترد کردی ۔جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سکول کے بورڈ آف گورنر کو ملازمین کی پے سکیل کے مطابق تنخواہیں مقرر کرنے کا حکم دیا اور قراردیا کہ بورڈ آف گورنرز ملازمین کی تنخواہیں پے سکیل کے مطابق فکس کر کے ادا کرے ۔عدالت نے کیس نمٹا دیا۔عدالت نے سابق ایگزیکٹو انجینئرکمیونیکیشن اینڈ ورکس خیبر پختونخوا( سی این ڈبلیو) ظفر بیگ کی آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ میں خیبر پختونخوا حکومت سے 4 سوالات کا تحریری جواب طلب کرلیا ۔ جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اثاثے بنانا جرم نہیں ۔ جسٹس منظور احمد ملک کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ اثاثے معلوم آمدن سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں؟ہم نے اثاثوں اور آمدن دونوں کے توازن کو دیکھنا ہے ۔