ہمارے رپورٹر نے خبر دی ہے کہ وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کے مطالبے پر سٹیٹ بنک آف پاکستان کے قانون میں 17اہم ترین ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجوزہ ترامیم کے تحت حکومت بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے سٹیٹ بنک کو نئے کرنسی نوٹ چھاپنے کا حکم نہیں دے سکے گی‘ بیورو کریٹس یا کسی بھی سرکاری افسر کو گورنر یا ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک تعینات کرنے پر پابندی ہو گی۔ تجویز ہے کہ ایسا کوئی شخص گورنر‘ ڈپٹی گورنر یا ڈائریکٹر سٹیٹ بنک نہیں بن سکے گا جو رکن پارلیمنٹ ہو‘ کسی حکومتی ادارے میں ملازم ہو‘ کسی بنک کا شیئر ہولڈر ہو یا اس کی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہو۔ ایک زیر غور ترمیم یہ ہے کہ سٹیٹ بنک وفاقی حکومت‘ صوبائی حکومت‘ حکومتی اداروں کی جانب سے کسی بھی قرض‘ ایڈوانس اور سرمایہ کاری کی گارنٹی نہیں دے گا۔ ترامیم کی سمری میں بتایا گیا ہے کہ سٹیٹ بنک کے انتظامی اور پالیسی معاملات کے لئے آئی ایم ایف کی طرز پر 8رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹو بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ایگزیکٹو بورڈ کی ذمہ داریوں میں کرنسی کی شرح تبادلہ کا تعین کرنا اور ریگولیٹری فریم ورک تشکیل دینا ہو گا۔سٹیٹ بنک آف پاکستان آرڈر 1948ء کے مطابق بنک کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ بینک نوٹوں سے متعلقہ معاملات کو دیکھے۔ پاکستان کو مالی طور پر مستحکم رکھنے کے لئے زرمبادلہ کے تسلی بخش ذخائر یقینی بنانے اور عمومی طور پر ملک میں کرنسی اور قرضے سے متعلق معاملات کو قومی مفاد کے تابع رکھنے کے لئے کردار ادا کرے۔سٹیٹ بنک کا ایک اہم کام ملکی کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھنا ہے۔ سٹیٹ بینک اس ضمن میں فارن ایکسچینج ایکٹ 1947ء کے مطابق ذمہ داریاں ادا کرتا رہا ہے۔ سٹیٹ بنک قانون کے تحت گورنر سٹیٹ بنک کا تقرر صدر مملکت 3سال کے لئے کرتے ہیں‘ اس مدت میں توسیع کی جا سکتی ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک ادارے کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ہونے کی حیثیت سے بورڈ آف گورنرز کی نمائندگی کرتے ہوئے تمام فرائض ادا کرتا ہے۔ سٹیٹ بنک کی اپنی دستاویزات بتاتی ہیں کہ وہ ملک میں مالیاتی استحکام برقرار رکھنے کا کام کرتا ہے۔ مالیاتی مارکیٹس اور مالیاتی ڈھانچہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ سٹیٹ بنک رقوم کے ہموار بہائو کو یقینی بناتا ہے۔ سٹیٹ بنک ایسے اقدامات کرتا ہے کہ مالیاتی ڈھانچہ معیشت کو فروغ پانے میں سہولت کاری کا کام کرے۔ ملک کا مالیاتی نظام معاشی شعبوں کو بروقت مدد فراہم کرے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے سٹیٹ بنک نظام میں شامل خرابیوں کی نشاندہی کر کے ماہرین سے متبادل تجاویز طلب کرتا ہے۔سٹیٹ بنک کے سابق گورنر اور وزیر اعظم کے مشیر برائے اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے 2005ء میں ایک رپورٹ تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ کسی ملک کو بنکنگ سیکٹر میں اصلاحات کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ بینکوں کی نشو و نما کیوں ضروری ہے اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کا حقیقی کردار کیا ہے۔ پاکستان کا بنکنگ سیکٹر عام شہریوں سے زیادہ حکومتوں کے لئے افادیت کے نکتہ پر کام کرتا ہے۔ سٹیٹ بنک میں اصلاحات کی عشروں سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ یہ ادارہ مالیاتی ریگولیٹر اور نگران ہی نہیں بلکہ حکومت کا اہم مشیر بھی ہے۔ سٹیٹ بنک وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹس جاری کرتا رہتا ہے جن میں مالیاتی اور معاشی سیکٹر کی پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے نئی تجاویز سامنے آتی ہیں۔ روائتی طور پر سٹیٹ بنک کا گورنر ایسے افراد کو لگایا جاتا رہا ہے جو پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ برسر اقتدار جماعت سے وفادار رہے۔ یہ میاں نواز شریف کی حکومت تھی جس نے 1997ء میں اصلاحات کے نام پر سیاسی تقرریاں کیں۔ سرتاج عزیز اور اسحق ڈار اس مالیاتی مداخلت کو اصلاحات قرار دیتے رہے۔ سابق حکومتوں نے بیرونی قرضوں کے استعمال میں عالمی اداروں کے ساتھ وعدہ خلافی کی۔ ان قرضوں کی شفافیت مشکوک رہی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالر کے حالیہ بیل آئوٹ پیکیج کے لئے تحریک انصاف کی حکومت کو سابق حکومتوں کی ان کوتاہیوں کا بوجھ اور ذمہ داری اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پہلے مرحلے پر آئی ایم ایف نے شرط عائد کی کہ کرنسی کی قدر کا تعین کرنے میں حکومت اور سٹیٹ بنک کا کردار ختم کیا جائے۔یہ مطالبہ اس لئے کیا گیا کہ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مصنوعی طور پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو برقرار رکھا۔ آئی ایم ایف کی شرط تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہ تھا لہٰذا اب ڈالر کو مارکیٹ میں طلب و رسد کے اصولوں پر آزاد چھوڑ دیا گیا جس سے روپے کی قدر میں تشویشناک حد تک کمی آئی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بنک کے قانون میں جن 17ترامیم کا مطالبہ کیا گیا ہے ان کو خرابیوں کے دور کرنے کے نقطہ نظر سے جانچیں تو یہ مثبت دکھائی دیتی ہیں۔ ادارے کو غیر ضروری معاملات میں الجھنے سے بچا کر بین الاقوامی مالیاتی نظام سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بعض حلقوں کو خدشہ ہے کہ عالمی ادارے اکثر پاکستان کے مفادات کے خلاف فیصلے کرتے ہیں اس لئے ان اصلاحات پر عمل کیا گیا تو ضروری پیشہ وارانہ قابلیت سے محروم پاکستان کے لیے نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ پاکستان کو مستقل مالیاتی بحران سے نجات کے لئے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ان فیصلوں کے ساتھ ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ بھی کیا جانا چاہیے۔ سٹیٹ بنک قانون میں ترامیم کے معاملے میں حکومت کا موقف سامنے آنا چاہیے تاکہ عوام کو ان ترامیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال کا تجزیہ کرنے میں آسانی دستیاب ہو سکے اور بحران کی شکار مالیاتی مارکیٹوں میں استحکام لانے کی تدبیر تلاش کی جا سکے۔