جنیوا کنونشن میںسیلاب متاثرین کیلئے خاطر خواہ امداد کا اعلان ہوا، اس پر حکمران جماعت کی طرف سے شکرانے ادا کئے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی بہترین سفارت کاری سے دنیا امداد دینے کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ بھیک پر شادیانے بجانا کسی بھی طرح درست نہیں، علامہ اقبال کا شعر بھی یاد دلایا جا رہا ہے ’’ کہ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر دو اہم سوال ہیں کہ کس طرح اعلان کی گئی امدادی رقم کو حاصل کیا جا تا ہے کہ اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری نے جو سیلاب زدگان کیلئے پہلے ٹیلی تھون کے ذریعے مختلف ممالک سے امداد کا اعلان کرایا وہ نہیں ملی۔ دوسرا سوال شفافیت کا ہے ، سابقہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان میں 2010ء کے سیلاب میں بہت بڑی امداد ملی مگر وسیب کے متاثرین کو اس کا حصہ نہ ملا، زلزلے کے موقع پر بھی پوری امداد صحیح معنوں میں تقسیم نہ ہوئی ، ڈیم فنڈ اورقرض اتارو ملک سنواروکے فنڈز کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ سال بارشوں سے آنے والے سیلاب سے ملک بھر میں بے پناہ تباہی آئی۔ اس ضمن میں عالمی سطح پر بھی پاکستان کو آفت زدہ ملک قرار دیا گیا اور بہت سے ممالک نے پاکستان کی مدد کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ فرانس نے پاکستان کے ساتھ مل کر متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیرنو میں حصہ ڈالنے کا اعلان کیا۔یہ تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب وزیر اعظم شہبازشریف اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ فرانس اس ضمن میں بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرے گا جس کا مقصد متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو، قابل تجدید توانائی کی منتقلی کو تیز کرنا اور موسمیاتی مسائل سے نبردآزما ہونا ہے۔ وفاق کی کوششیں اپنی جگہ درست مگر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جنیوا کنونشن میں اعلان کی گئی امداد وفاق کو ملے گی۔ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ وفاق کی طرف سے پنجاب کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلاب وسیب میں آیا ہے اوروسیب کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وسیب پہلے ہی محرومی اور پسماندگی کا شکار ہے۔ وسیب کے ارکان اسمبلی کو بھی اپنے علاقہ کے لوگوں کی بات کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی بات کی ہے، سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نے خود مذاکرات کئے، اس کا کیا نتیجہ نکلا؟۔ دہشت گردی کا عذاب آج بھی جاری ہے، عمران خان کا کہنا ہے کہ طالبان کے پاس امریکی ہتھیار ہیں ، نئی جنگ عذاب بن جائے گی ، اگر دہشت گردی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہیں تو پھر کبھی بھی امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ وانا میں ہزاروں افراد نے دہشت گردی کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے، سوات میں دھرنے چلتے رہے ہیں، پورا ملک دہشت گردی سے پریشان ہے۔ عمران خان نے اپنی غیر سیاسی دانش سے خود اسٹیبلشمنٹ سے حکومت لی، پھر لی گئی حکومت کو خود ہی ختم کرایا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو شہرت ملی۔ اب جس طرح وہ بیانات دے رہے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ وہ اس شہرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ عمران خان کی پشتونوں سے ہمدردی اپنی جگہ مگر پشتونوں سمیت جو پاکستانی خاندان دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں ان کے دل سے پوچھئے کہ ان کے ساتھ کیا گزر رہی ہے۔ خیبرپختونخواہ کے علماء نے بھی دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا ہے مگر عمران خان کو آج تک کسی بات سمجھ نہیں آئی۔ 2022ء میں ملک کے مختلف حصوں میں بم دھماکوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 20 جنوری کو انارکلی بازار لاہور میں ایک بم دھماکا ہوا، جس میں نو سالہ بچے سمیت تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ 2022ء کے اوائل میں سرزمین بلوچستان میں بھی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رہیں۔ دو فروری 2022ء کو بلوچستان کے علاقے پنج گور اور نوشکی میں فوجی کیمپوں پر حملے میں چار دہشت گرد مارے گئے اور چار جوان شہید ہوئے۔اس سے قبل 25 اور 26 جنوری کی درمیانی شب بلوچستان کیچ پر چیک پوسٹ پر حملے میں 10 جوان شہید ہوگئے، جوابی کارروائی میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوا۔ 28 جنوری کو سوئی میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں تین لیویز اہل کاروں سمیت چار افراد شہید ہوگئے۔ 2 مارچ کو کوئٹہ کے علاقے فاطمہ جناح روڈ پر پولیس وین کے قریب دھماکے سے ڈی ایس پی سمیت 3 اہل کار جاں بحق اور 25 افراد زخمی ہوئے۔ 30مارچ کو دہشت گردوں کی ٹانک میں ملٹری کمپائونڈ میں گھسنے کی کوشش ناکام بنادی گئی، فائرنگ کے تبادلے میں تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا جب کہ 6 جوان شہید ہوئے۔ جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں 2 افسران شہید ہوگئے ۔ 16 مئی شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ کے قریب خودکش دھماکے کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کے تین اہل کار اور تین معصوم بچے شہید ہوگئے۔یہ صرف چند واقعات ہیں جبکہ دہشت گردی کے عذاب کی کہانی اتنی بڑی ہے کہ لکھنے بیٹھیں تو کئی کتابیں وجود میں آ جائیں ۔ وسیب کے لوگ اپنے سرائیکی اضلاع ڈی آئی خان اور ٹانک میں جس قدر دہشت گرداور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ضروری امر یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں سے ہمدردی کا اظہا ر کیا جائے۔ ٭٭٭٭٭