ایک تو دل بہت اداس ہے‘ کچھ اچھا نہیں لگتا‘ کسی نہ کسی پیارے کے بچھڑ جانے کی خبر ملتی ہے۔ دوسری طرف ملک کا جو حال ہورہا ہے اس نے پریشان کن صورت حال اختیار کر رکھی ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہ تو اچھا ہے‘ ایماندار ہے‘ کچھ کرنے کا جذبہ رکھتا ہے مگر اسے ٹیم بہت خراب ملی ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ ٹیم اس کی اپنی چنی ہوئی ہے۔ اچھا‘ ایسا نہیں ہے اس پر مسلط کی گئی ہے۔ چلئے یہی مان لیجئے۔ اس سے مگر حیرانی ان پر ہوتی ہے جس نے اسے منتخب کیا ہے عوام نے کیا؟ جمہوریت کی لاج رکھنے کی خاطر یہی مان لیتے ہیں مگر جس قدر داد اس انتخاب کی جائے وہ کم ہے۔ اپوزیشن یہ نہیں مانتی۔ وہ کہتے ہیں الیکٹڈ نہیں‘ سلیکٹڈ ہے جس قدر کھل کی یہ بات اس بار کہی جا رہی ہے‘ ماضی میں کبھی نہیں کہی گئی۔ میں تو ان لوگوں میں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ کسی ملک کی مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ بہت اہم ہوتی ہے۔ ہم اسے ایک خاص تناظر میں لعن طعن کرتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی بقا کے لیے اس کی اس پوشیدہ ریاست کا مضبوط دیانتدار اور محب وطن ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ٹرمپ نے اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کا تیا پانچہ ایک کرکے رکھ دیا ہوتا۔ یہ گویا سکیورٹی والوہے جو ریاست کی بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ میں تو اب یہ بھی سوچنے لگا ہوں کہ مقتدرہ تو مقتدرہ ہم نے نوکرشاہی کو تباہ کر کے بھی ظلم کیا۔ ملک کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے یہ بھی ایک بنیادی ڈھانچہ تھا۔ ہم نے بہت گالیاں دیں انگریز نے سوچ سمجھ کر پولیس کا نظام‘ ضلعی انتظامیہ کا ڈھانچہ‘ صوبوں اور وفاق کا بندوبست مرتب کر رکھا تھا۔ ہم نے اسے نو آبادیاتی دور کی یادگار کہہ کر رد کردیا۔ ایوب خان جیسے فوجی آمر مطلق نے بھی ملک کے معاملات چلانے کے لیے اس ڈھانچے پر انحصار کیا۔ ہم نے اسے گالی بنا دیا۔ اس کے بدلے جو نظام لائے‘ اس نے جو گل کھلائے وہ سامنے ہیں۔ اصل بات جو عرض کر رہا ہوں وہ مقتدرہ کے بارے میں ہے۔ کسی ریاست کی مقتدرہ ایسی شے نہیں جسے اٹھا کر تاریخ کے کباڑخانے میں ڈال دیا جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں اور ہمارے ہاں تو ہم اگر چاہیں بھی تو ممکن نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس مقتدرہ کا حد سے مگر پھیل جانا ہی تکلیف دہ اور خطرناک ہوتا ہے جیسا ہمارے ہاں ہے۔ پھر بھی یہ خیال ہوتا تھا کہ مشکل حالات میں یہ اسٹیبلشمنٹ ملک کو گرنے نہیں دے گی۔ یہ خیال کئی بار غلط ثابت ہوا‘ خاص کر سقوط ڈھاکہ کا اس کا بین ثبوت ہے اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی اس کا واضح ثبوت ہے۔ آج ہم افغانستان میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے پھر رہے ہیں۔ یہ خارجہ پالیسی کس کی بنائی ہوئی ہے۔ میں بات کو دور تک لے جانا نہیں چاہتا۔ ہم نے جو جو کچھ کیا اس میں جو جو بھی ذمہ دار ہے‘ وہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے تو اسے اندازہ ہو گا کہ مجرم کون ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی آمد کہیں آسمانوں سے نہیں ہوئی۔ آج اس ملک میں بہت کم لوگ ہوں گے جو ان کی عوامی طاقت کو ان کے حق حکمرانی کا جواز قرار دیتے ہوں۔ چلئے‘ مان لیا یہ سب نیک نیتی کے ساتھ ہوا ہوگا تاہم اس سے مقتدرہ پر سے سارا اعتماد اٹھ گیا۔ یہ جو کہا جاتا تھا کہ ہماری ریاست اتنی مضبوط ہے کہ اس کو حکمرانوں کی بیوقوفیاں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ کیونکہ اس کی پشت پر ریاست کی قوت ہے۔ ریاست کی قوت ہی مقتدرہ ہوا کرتی تھی‘ اس میں کون کون شامل ہوتا ہے‘ اس بحث کو رہنے دیجئے‘ انگریز جب اس ملک کے فاتح کی حیثیت سے آیا تو اسے بھی یہ مسئلہ درپیش ہوا۔ وہ طاقت کے زور پر آیا تھا۔ اس کی فوج اپنی بالادستی چاہتی تھی اور وائسرائے اپنی۔ آخر انگریز نے ولایت میں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ بالادستی وائسرائے کی ہوگی۔ ضلعی انتظامیہ تک میں اس نے طے کیا کہ ریاست کا ڈنڈا تو اگرچہ پولیس کے ایس پی صاحب کے پاس ہے مگر اس پر نگرانی ڈپٹی کمشنر کرے گا۔ ہرجگہ اس نے توازن قائم کرنے کا بندوبست کیا۔ بہرحال میں یہ عرض کرنا تھا کہ مقتدرہ ضروری بھی ہے اور اس پر ریاست کے معاملے میں اعتماد بھی کیا جا سکتا ہے مگر خود اس کی قوت میں اعتدال رکھنے کے لیے اس پر سیاسی نگرانی ضروری ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس وقت گو صورت حال یہ ہے کہ ملک کے حالات ایسے ہوئے کہ فیصلہ کن حیثیت مقتدرہ کو حاصل ہو گئی۔ کہا جانے لگا ملک بچانا ہے تو معاملات اس ریاستی قوت کو سونپ دو۔ تفصیل چھوڑیئے ایک حکمران ہم پر مسلط نہ سہی بس بٹھا دیا گیا۔ اس طرز حکمرانی نے ہمیں کیا دیا۔ فلسفہ دانی چھوڑیئے۔ نے ہاتھ باگ پر ہے ‘ نہ پاہے رکاب میں ہم نے کہا ہم اس ملک میں آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو تہس نہس کردیں گے۔ ہم نے جو حال کیا ہے وہ ابھی کچھ نہیں۔ آنے والے دن اس معاملے میں اور خوفناک ہیں۔ ہم نے بڑے جادو سے پٹرولیم کی قیمتیں کم کیں اور اعلان کیا کہ دیکھو کیا معرکہ مارا ہے۔ کیا نتیجہ نکلا؟ پٹرول ناپید ہوگیا۔ پٹرولیم کی مصنوعات کا یہ حال ہے کہ گزشتہ دنوں مٹی کے تیل غالباً 40 روپے لٹر تھا۔ ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں‘ انہیں ضرورت تھی۔ انہوں نے ایک بار 120 روپے لٹر‘ دوسری بار 130 روپے لٹر خریدا ہے۔ پٹرول 80 روپے لٹر تھا‘ اسے ہم نے 150 روپے تک ہائی آکٹین کہہ کر فروخت کیا۔ کہا گیا پٹرولیم مافیا کو چھوڑا نہیں جائے گا۔ نجی پٹرولیم کمپنیوں نے فراڈ کیا ہے۔ ان کو الٹا لٹکا دیں گے۔ کیا ہوا۔ وہ ہوا جو تاریخ میں کبھی نہ ہوا ہوگا۔ ہم کسی کی گوشمالی نہ کرسکے۔ پٹرولیم کی قیمتیں وقت سے پہلے بڑھا کر گویا تاریخ رقم کردی اور اتنی زیادہ بڑھائیں کہ یہ بھی تاریخ ساز ہے۔ ہم گویا تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اس پر بقراطی جھاڑ رہے ہیں کہ یہ قیمتیں خطے میں سب سے کم ہیں۔ اس ملک میں پٹرول چند گھنٹے کے لیے تو ناپید ہوا ہو گا یا ایک آدھ دن کے لیے مگر ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ پورا مہینہ اس نایابی میں گزر گئے۔ اب غیر معمولی قیمت بڑھا کر کہہ رہے ہیں کہ اس پر بھی بیچنے والوں کو نقصان ہورہا ہے۔ تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ قیمت کم کرنے سے پہلے تمہیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتنی کم کر رہے ہو۔ یہ اوگرا‘ یہ آئل کمپنیاں‘ یہ وزارت خزانہ‘ یہ سب کیا کہہ رہے تھے۔ کس برتے پر یا کس حساب سے آپ نے قیمتیں کم کی تھیں۔ تمہیں قیمتیں کم کرنا بھی نہیں آتیں۔ تمہیں یہ بھی نہیں پتا کہ تمہارے پاس کتنا ذخیرہ ہے‘ تم یہ بھی نہیں جانتے کہ پٹرولیم مافیا کتنا مضبوط ہے۔ اور یہ کہے جا رہے ہو کہ چھوڑیں گے نہیں‘ کرپشن ختم کر کے دم لیں گے۔ دم ہی تو نکال کر رکھ دیا ہے۔ اس کا نہیں جو کرپشن مافیا ہے‘ بلکہ عوام کا۔ بھاڑ میں جائے ایسا کرپشن فری معاشرہ کہ کوئی سانس لینے تک کے لیے زندہ نہ رہے اور کرپٹ لوگ آرام سے من مانی کرتے پھر رہے ہوں۔