بھلے ہی بھارت میںہندوتوا سیاست زور آور ہو اورہندو راشٹربنانے والے کتنے خوفناک چہروں سے بھارت میں ہرطرف نمودارکیوں نہ ہوںلیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر بھارت کے بیس کروڑ مسلمان اوراڑھائی کروڑ سکھ ایک ہوکرآزادی کی تحریک چلائیں توہندوتوا کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے ۔ دہلی سے ملحق گروگرام، یا گڑگائوں میں دو ہفتے قبل مقامی انتظامیہ نے آٹھ مقامات جن میں کچھ پارک اورآبادی کی کھلی جگہیں تھیں میں برسوں سے ہونے والی جمعہ کی نماز پر پابندی لگا دی ۔پہلے بی جے پی حامیوں نے نماز پڑھے جانے پر اعتراض کیا پھرآرایس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈے عین جمعہ کی نماز پراکٹھے ہوئے اور احتجاج کیا۔ انتظامیہ کوبہانہ مل گیا اوراس نے ہندوغنڈوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے گروگرام، یا گڑگائوں کے آٹھوں مقامات پر جمعہ کی نماز پڑھے جانے پر پابندی لگا دی اور آٹھوں مقامات پر گروگرام میں جمعہ کی نماز بند ہو گئی۔ گروگرام دہلی سے ملحق ایک انڈسٹریل علاقہ ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں مسلم آبادی بس چکی ہے۔ وہاں محض دو یا تین مساجد ہیں، جب کہ تقسیم ہندکے قبل کی کئی سو مساجد یہاں بند پڑی ہیں۔ بہرحال مساجد کی تنگی کے سبب گروگرام، یا گڑگائوں کے مسلمان پارک اورآس پاس کے کھلے میدانوں میں نمازجمعہ پڑھنے پر مجبور تھے۔ لیکن اب ان کے لئے ایسی جگہوں پر بھی نماز پڑھنے پر قدغن عائد ہوچکی ہے۔ بے چارہ گروگرام کا مسلمان دل مسوس کر رہ گیا مگر مودی کے ہندوستان میں وہ کرتا بھی تو کیاکرتا۔ لیکن ابھی وہ مایوسی کے عالم میں ہی جی رہا تھا کہ یکایک گروگرام کے سکھوں کے گردوارہ ایسو سی ایشن نے اعلان کردیاکہ 19نومبر 2021 بروزجمعہ ،نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گروگرام کے تمام گردواروں کے دروازے کھلے رہیں گے مسلمان آئیں اورسکھوں کے گردواروں میںجمعہ کی نماز کا فریضہ اداکریں۔ اس طرح اللہ کی طرف سے جمعہ کی نماز کا غیبی انتظام ہو گیا اور انتظامیہ و بی جے پی کے حامیوں کے منہ لٹک گئے۔ گروگرام کے سکھ گردوارہ ایسو سی ایشن نے مسلمانوں کی نماز کے لیے جو کام کیا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ بلاشبہ جمعہ جیسی اہم نماز کے لیے سکھوں نے گردواروں کو کھول کر جو کام کیا ہے، وہ نہ صرف مقامی انتظامیہ کے منہ پر ایک زناٹے دارچانٹا ہے بلکہ بی جے پی کی مسلم منافرت کی سیاست کا ایک کرارا جواب بھی ہے۔ مودی کے دور میں سکھوں کی اس جرات رندانہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔اگرچہ مسلمانوں نے گردوارے میں نماز تو نہیں پڑھی لیکن اس سے ایک پیغام دیاگیاکہ بھارتی مسلمان اورسکھ اکٹھے اورایک ہوکرہندوکی غلامی سے نجات کی تحریک چلاسکتے ہیں اوروہ اس کے اہل ہوسکتے ہیں۔گرچہ مسلمانوں نے گرو نانک کے یوم پیدائش کی وجہ سے گروگرام کے صدر بازار واقع گردوارہ کی جگہ پر جمعہ کی نماز نہیں پڑھی تاہم ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں نے پوری سکھ کیمونٹی کے دلوں میں بیٹھ کر نماز پڑھی ہے اور بھارتی مسلمانوں نے سکھوں کی اس فراخ دلی پر سکھوں کا شکریہ ادا کیا۔دوسری طرف گروگرام کے سکھوں کے گرودارہ انتظامیہ کی جانب سے گردوارہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی آفر کے بعد ہندوتوا تنظیمیںچراغ پا نظرآرہی ہیں اوران کی طرف سے گردوارہ کی کمیٹیوں پر دباؤ ڈالاجارہاہے ۔بی جے پی ،آریس ایس اور بجرنگ دل اوران سے جڑی دہشت گرد ہندوتنظیمیں سکھوں کی گرداواہ کمیٹیوں پر دبائوکا یہ ہتھکنڈہ اوریہ حربہ اس لئے استعمال کررہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو گردواروں میں بھی نماز جمعہ ادا کرنے سے روکا جا سکے۔ لیکن اس موقع پرمسلمانوں اورسکھوں کی مقامی لیڈرشپ نے بیک زبان کہاکہ گروگرام میں گردوارہ انتظامیہ کی جانب سے نماز کی ادائیگی کرانے کا فیصلہ ہندوتووادی تنظیموں کی باطل کوششوں کے منہ پرایک زوردار طمانچہ ہے ، اس لیے وہ اپنے مذموم عزائم کو بروئے کار لانے کی خاطر نفرت انگیزی اور فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ گردوارہ صاحب (صدر بازار) واقع گڑگاؤں و گروگرام مسلم کونسل کی کمیٹی نے مشترکہ طور پر مستقبل میں امن قائم کرنے کی خاطر اپنے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیشہ ایک ساتھ چلنے کا عزم کیا ہے اور اتحاد کے ساتھ چلنے کا اشارہ دیا۔سکھوں کی خالصتان تحریک کوعالمی سطح پرجوپذیرائی مل رہی ہے اس کااندازہ برطانیہ کے شاہی دربارمیں ہوئے ریفرنڈم کے تین ادوار سے ہو رہا ہے جس میں لاکھوں سکھوں نے خالصتان بنانے کے اپنے عزم کوتازہ کردیا۔اگربھارت کے مسلمان اورایک سکھ اتحاد کرکے ایک ساتھ چلنے کاعہد کرلیں تویہ بھارت کے خونی جبڑوں والے ہندوتواعفریت کے لئے کڑاچلینچ ہوگا۔سکھوں اوربھارتی مسلمانوں کو بھارتی ہندوکے جبر سے نجات حاصل کرنے کے لئے اتحاد کرناہوگا اور دوش بدوش چلنا پڑے گا ورنہ مسلمانوں اورسکھوں سمیت بھارت کی تمام اقلیتوں کواپنی گردن کٹوانے کے لئے ہندوتواکے سامنے دست بست ہونا پڑے گا۔