ہفتہ گزراں کی سب سے توجہ خیز خبر تو وہی رہی تھی جو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جنم پذیر ہوئی یعنی اپوزیشن کے 30 ارکان غائب ہو گئے اور حکومت نے اپنی مرضی کے قانون منظو کرا لئے۔ حالانکہ یہ خبر ذرا بھی انوکھی نہیں تھی۔ چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بھی پتہ چل گیا تھا کہ آئندہ یہی کچھ ہو گا۔ جن دنوں خبریں چل رہی تھیں کہ قاف لیگ حکومت سے الگ ہونے والی ہے اور پھر حکومت کا برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا ،انہی دنوں اس کالم میں یہ لکھا گیا تھا کہ اول تو قاف لیگ حکومت سے الگ ہوگی ہی نہیں اور بالفرض محال الگ ہو جائے تو بھی چھ سے فرق نہیں پڑے گا بلکہ خود حکومت کے اپنے دو تین درجن ارکان بھی فارورڈ بلاک بنا لیں تب بھی نتیجہ صفر رہے گا کیونکہ حکومت کے ہاتھ وہ گر آ گیا ہے جس سے اکثریت اقلیت میں اور اکثریت اقلیت میں بدلی جا سکتی ہے۔ یہی کچھ سینٹ میں عدم اعتبار کے مواقع پر ہوا اور وہی پھر مشترکہ اجلاس میں اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔ باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ غائب ہونے والے ارکان غائب رہنے میں عافیت سمجھتے تھے۔ ارکان سمجھدار تھے‘ غائب ہونے کو ترجیح دی‘ جان بھی بچالی اور محبان وطن کی فہرست میں نام بھی لکھوا لیا۔ ٭٭٭٭ محب وطن ہونے کے فائدے ہی فائدے ہیں۔ مثلاً ایک یہی فائدہ کیا کم ہے کہ انکم ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ نیب ان کی طرف سے آنکھیں بند رکھتا ہے۔ یہ تو محض ضمنی فائدہ ہے۔ ایف بی آر کی جو فہرست آئی ہے۔ اس میں ایک سخت محب وطن وفاقی وزیر کا نام بھی شامل ہے۔ ان کی وسیع و عریض کوٹھی جس کا وسعت رقبہ کے اعتبار سے اسے کوٹھیوں کا بلوچستان کہا جا سکتا ہے کے کارپورچ میں درجنوں نہیں بیسیوں گاڑیاں ہمہ وقت کھڑی رہتی ہیں اور کوئی گاڑی بھی غریبانہ نہیں یعنی ہر ایک کی قیمت کئی کئی کروڑ ہے۔ یہ صاحب 70,70 لاکھ کی موٹرسائیکلیں بھی رکھتے ہیں اور گاہے بہ گاہے کراچی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر دندنانے کا شوق پورا کرنے کے لیے ان کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ لندن میں ان کے قیمتی مکانات‘ ولاز‘ فلیٹس اور دوسری رہائش گاہوں کی ایک متاثر کن فہرست علاوہ ازیں ہے۔ ایون فیلڈز کے اپارٹمنٹس کو شرماتا ہے۔ خیر سے ان صاحب نے ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دیا۔ محب وطن ہونے کا ایک ادنیٰ سا فائدہ…بعد ازاں انھوں نے ٹوئیٹر پر اپنے ٹیکسز کی رسیدیں جاری کر کے ان الزامات کی نفی بھی کر دی تھی ۔ ٭٭٭٭ یہ تو خیریہ رہے‘ مولوی صاحب نے بھی ایک دھیلا ٹیکس نہیں دیا حالانکہ ان کا ایک وقت کا کھانا اتنا ضخیم اور وسیع الحجم ہوتا ہے کہ محض ایک کھانے پر معدہ ٹیکس لیا جائے تو کئی بھوکوں کا پیٹ محض اس ایک کھانے کے محصول سے بھی بھرا جا سکتا ہے۔ موصوف نے گزشتہ برس لاکھوں لوگوں کا کھانا بھی ڈکار لیا تھا۔ بہرحال‘ اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں۔ اس لیے کہ موصوف بہت نیک اور ایماندر ہیں‘ صادق اور امین بھی اگرچہ بڑے صاحب سے ذرا کم۔ ٭٭٭٭ خود صاحب جی نے محض دو اڑھائی لاکھ ٹیکس دیا ،جس پر اپوزیشن کے لوگ اعتراض برلب ہیں حالانکہ انصاف کی بات یہ ہے کہ چھوٹی سی غریبانہ کٹیا میں زندگی کے ان پورے کرنے والے اس درویش نما انسان سے اتنا ٹیکس لینا بھی ایف بی آر کی زیادتی ہے۔ انصاف تو تب ہوتا جب ایف بی آر والے الٹا اس کو اپنے پلے سے کچھ دیتے۔ موصوف کی کسمپرسی کا عالم یہ ہے کہ مشترکہ اجلاس کے شوروغوغا سے فائدہ اٹھا کر مشیر قانون نے کئی اور بل منظور کروالیے ہیں ‘ بہتی گنگا میں لگے ہاتھوں کئی لوگوں کی تنخواہیں بھی بڑھوا لی گئی ہیں۔ ایسے دور میں جب ہر شے کی قیمت ہر روز بڑھ رہی ہو‘ تنخواہوں میں یہ اضافہ مستحقین کی محض اشک شوئی ہے ورنہ اتنے اضافے سے کیا ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭ اسلام آباد میں وکلا حضرات کی اے پی سی ہوئی جس میں وکیلوں نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کہ کچھ پرانے سنگ میل کہلانے والے واقعات کی یاد تازہ ہو گئی۔ وکلا رہنمائوں نے کھل کر تقریریں کیں اور وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو ہم آپ جیسے لوگ کہتے تو کب کے مفقودالخبر ہوچکے ہوتے۔ وکلا بہرحال وکلا ہیں‘ انہیں مفقود الخبر کرنے سے کچھ پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے اس لیے وہ سب کچھ کہہ ڈالنے کے باوجود بچ نکلتے ہیں۔ اس کانفرنس میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو آزاد کرانے کا عزم دہرایا گیا‘ لوگوں کو بنا وارنٹ گرفتار کرنے کی مخالفت کی گئی‘ آئین کی پاسداری اور جمہوریت کو بحال کرنے کے مطالبات بھی کئے گئے۔ سب کے سب بڑے بھاری پتھر ہیں۔ ستر سال سے اٹھانے کی کوشش ہورہی ہے اور وہ جوں کے توں پڑے ہیں‘ دھرتی میں گڑے ہیں تو بس گڑے ہیں۔ خیر‘ یہ اے پی سی کچھ اور کر سکے یا نہ کرسکے‘ ہائی وے ٹو فاشزم پر ایک سپیڈ بریکر تو بنا ہی ڈالا۔ ٭٭٭٭ اپوزیشن کی اے پی سی ہو گئی‘ دیکھئے اب کے بعد اپوزیشن والے کچھ کرتے ہیں یا نہیں۔ دو سال کا ریکارڈ ان کی تیر اندازی کا بھی خوب ماجرا ہے ؎ جگر تک آتے آتے سو جگہ گرتا ہوا آیا تیرا تیر نظر آتا ہے یا مستانہ آتا ہے ٭٭٭٭ سانحہ موٹروے پر بعض احباب پریشان ہیں۔ عرض ہے پریشان مت ہو جئیے صاحبان‘ یہ کسی طور بھی سانحہ ساہیوال کا ’’ری پلے‘‘ نہ ہو گا۔ جو فی الحال مفرور ہیں‘ بعداز حال بھی شکنجے میں آئیں گے۔