آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بہاولپور میں سٹرائیک کور کے دورہ کے دوران رات کے وقت حملے کی مشقوں کا معائنہ کیا۔ انہوں نے پاک فوج کی صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ فوج ہر طرح کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج کے جوانوں سے لے کر جرنیلوں تک سب بھر پور تربیت یافتہ ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی صلاحیت کے متعلق جو کچھ کہا اس کا ایک پس منظر ہے۔ اس پس منظر کا تعلق بین الاقوامی سکیورٹی پالیسیوں ‘ خطے میں سپر پاورز کی مداخلت‘ ہمسایہ ممالک کے داخلی بحران اور تنازع کشمیر سے ہے۔ پاک فوج کو لاحق نئے چیلنجز میں ملک کا سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے منصوبوں کو دشمن کی تخریبی کوششوں سے بچانا ہے۔ عہد حاضر کی فوجی صلاحیت کا مطلب عددی اعتبار سے بڑی فوج نہیں بلکہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے اور زیادہ دشمنوں کے مختلف النوع منصوبوں کو ناکام بنانے کی استعداد ہے۔ دنیا میں امریکی فوج کے بعد شاید ہی کوئی فوج ہو جو کثیر الجہتی خطرات سے مقابلہ کرنے کی اتنی مشقیں کرتی ہو جس قدر پاکستانی فوج کرتی ہے۔ ان مشقوں میں طویل عرصے تک افغانستان میں سرگرم عمل سوویت یونین کے خلاف مزاحمت اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ دونوں ادوار میں ہزاروں سپاہی شہید ہوئے۔ بہت سے افسر اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران شہادت سے سرفراز ہوئے۔ سوویت یونین کو خطے میں قدم جمانے سے روکنا آسان کام نہ تھا۔ خصوصاً جب پاکستان کا ایک حصہ الگ کر دیا گیا ہو۔ مغربی پاکستان جب پورا پاکستان بن کر ابھرا تو ساری دنیا اس کی صلاحیت کی معترف ہوئی۔ نائن الیون کے واقعات میں اگرچہ کوئی پاکستانی شہری ملوث تھا نہ اس واقعہ سے پاکستان کا تعلق تھا مگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو اصول طے کئے ان میں جہاد کی غلط تشریح، اسلامو فوبیا اور مسلمانوں سے نفرت نے پرورش پائی۔ پاکستان بحالت مجبوری اس جنگ میں امریکہ کا ساتھی تھا مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان کو اس جنگ کے ضرررساں اثرات سے بچانے کے لئے بھر پور کردار ادا کیا۔ یہ امریکہ تھا جو پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر الزامات عاید کرتا رہا اور ہر بار ڈومور کے لفافے میں ایسے مطالبات شامل کر دیتا جن کا پورا کرنا گویا پاکستان کے لئے داخلی انتشار کو ہوا دینا تھا۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن‘ بعض تنظیموں کے خلاف کارروائیاں اور نیشنل ایکشن پلان نے پاکستان کی مسلح افواج کو اس قابل بنانے میں مدد دی کہ وہ خطے کے تنازعات کا ایندھن والے گروہوں کا قلع قمع کر سکیں۔جنوب مشرقی ایشیا اور اس سے ملحقہ علاقے ایٹمی ریاستوں کا گھر ہیں۔ پاکستان‘ بھارت اور پھر ان کے ہمسائے میں چین اور روس ایٹمی طاقت ہیں۔ اس خطے میں کوئی تنازع سنگین صورت اختیار کرتا ہے تو دنیا کا امن تباہ ہونا لازم ہے۔ کشمیر ایک ایسا تنازع ہے جو پچھلے 72برس سے حریت پسند کشمیریوں کے خون سے زندہ ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں عالمی برادری سے کئے گئے وعدوں سے فرار ہو رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ بھارت کے پاس پاکستان کی نسبت تین گنا بڑی فوج ہے مگر پاکستان کو مغلوب کرنے کی ہر کوشش اس کی ناکامی میں تبدیل ہوئی۔ بھارتی ادارے خود تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے جوان لڑنے میں ہی نہیں ابلاغیاتی محاذ پر بھی بھارت پر سبقت رکھتے ہیں۔ فروری 2019 میں پاکستان کے دلیر ہوا بازوں نے جس طرح بھارت کے دو طیارے تباہ کئے اور اسے بتا دیا کہ پاکستان اس کی عددی برتری کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس واقعہ کے بعد بھارت کا طرز عمل واضح طور پر تبدیل ہوا۔ اس نے پاکستان کو افغانستان کی سرزمین اور لائن آف کنٹرول پر الجھانے کی بجائے کشمیر کی آئینی حیثیت کا یکطرفہ طور پر خاتمہ کیا۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت واضح کر چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ اس کے لئے قابل قبول نہیں اور پاکستان ہر فورم پر کشمیریوں کی مدد کرتا رہے گا۔ کچھ عرصہ سے بھارت لائن آف کنٹرول کے قریب فالس فلیگ مشقیں کر رہا ہے۔ بھارتی افواج اپنے عوام کو یہ باور کرا رہی ہیں کہ یہ مشقیں نہیں بلکہ پاکستان کی مسلح افواج اور نام نہاد دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی کارروائیاں ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت جس طرح نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف پھیلائے مغربی پروپیگنڈہ کو تنازع کشمیر ‘ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف استعمال کرتی رہی اس سے نمٹنا آسان نہیں تھا۔ دشمن کی ہر چال کو پہچاننا اور بروقت اس کا سدباب کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مسلح افواج کے فرائض کی ادائیگی میں دو طریقوں کو اہمیت حاصل ہے۔ دشمن مسلسل حملے کر رہا ہو تو بعض صورتوں میں دفاعی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ عموماً داخلی سطح پر جب تخریبی کارروائیاں کی جا رہی ہوں تو ان کا سدباب کرنے کے لئے دفاعی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد شہریوں کو گروہوں میں تقسیم ہونے سے بچانا، ریاست سے بدگمانی کا خاتمہ اور اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے۔ جارحانہ حکمت عملی کا مطلب دشمن کو کسی ناجائز موقف سے پسپا کرنا ہوتا ہے۔ سٹرائیک کور کی خدمات اور صلاحیت کی ضرورت پاکستان کو ہمیشہ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان نے عالمی برادری ‘ عالمی اداروں اور بڑے ممالک کو موقع دیا کہ وہ کشمیر سمیت بھارت سے تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے میں مدد دیں۔ بھارت کی ہٹ دھرمی نے ایسی تمام کوششوں کو ثمر بار نہیں ہونے دیا۔ ان حالات میں بھارت کی شرانگیزی سے مقابلہ کے لئے جس قدر موثر صلاحیت کی ضرورت ہو اس میں مہارت حاصل کی جانی چاہیے۔