کبھی آپ نے پولیو ورکرز دیکھے ہیں؟ ان میں خواتین بھی ہوتی ہیں اور مرد حضرات بھی۔ پولیو ویکسین کا باکس پکڑے ایک رجسٹر اور قلم تھامے وہ پیدل چلتے جاتے ہیں۔ موسم کی سختیاں برداشت کرتے گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور پانچ سال تک کے بچوں کا پوچھتے ہیں تاکہ کوئی بچہ پولیو کے قطرے پیئے بغیر نہ رہ جائے۔ ان پولیو ورکرز کو سارا دن مختلف مزاج کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ بہت معمولی معاوضے کے عوض یہ لوگوں کی گھوریاں بھی سہتے ہیں‘ جھڑکیاں بھی سن لیتے ہیں‘ ناخوشگوار باتیں بھی برداشت کرتے ہیں لیکن گھر گھر پولیو کے قطرے پلانے کے مشن کو جاری رکھتے ہیں۔یہ ہمارے پاکستانی بہن بھائی ہیں یہ آپ کے دروازے پر آئیں تو انہیں مسکرا کر خوش آمدید کہیں۔میری نظر میں یہ لوگ پاکستاان کے خدمت گزار ہیں۔ معمولی معاوضے پر سخت گرمی میں پیدل گھر گھر پھرنا اور اپنے فرض کو پورے خلوص سے ادا کرنا کوئی آسان بات ہے۔ آج سے چار سال پہلے تک ہمارے گھر بھی پولیو ورکرز آیا کرتے تھے۔ آغاز میں ایک بھلی سی لڑکی آتی تھی‘ سیاہ رنگ کا عبایہ پہنا ہوتا تھا، ساتھ اس کی والدہ ہوتیں۔ بزرگ خاتون تھیں مگر ہمہ وقت چہرے پر مسکراہٹ ہوتی۔ خیر سے ہمارے صاحبزادے بھی پولیو کے دو قطرے پینے میں ایسا ذوق و شوق ظاہر کرتے کہ وہ اماں جی بے اختیار دعائوں کے پھول نچھاورکرتیں۔ ہم ہمیشہ یہ اہتمام کرتے کہ ٹھنڈا پانی‘ جوس‘ شربت جو بھی میسر ہوتا ان کی خدمت میں پیش کرتے۔ چائے کی آفر کرتے‘ ان کا موڈ ہوتا تو چائے بنا دیتے۔ وہ اماں جی مجھے کہتیں کہ میری بیٹی اکیلی گھر گھر نہیں جا سکتی تو پھر میں اس کے ساتھ آ جاتی ہوں۔ مجال ہے موسم کی سختیاں کبھی ان کے ہمہ وقت مسکراتے چہرے پر اثر انداز ہوئی ہوں۔ پھر پولیو وکرز بدل گئے‘ کوئی اور ٹیم آنے لگی۔ ایک روز شام کے وقت بیل ہوئی تو وہ اماں جی مٹھائی کا ڈبا اٹھائے باہر کھڑی تھیں اور خوشی سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ کہنے لگیں کہ میری بیٹی جوپولیو ورکرز تھی وہ کانسٹیبل بھرتی ہو گئی ہے تو میں آپ کے لیے مٹھائی لائی ہوں۔ اماں جی کو اندر بٹھایا‘ چائے سے تواضع کی تو ان کے مسکراتے ہوئے چہرے پر آنکھیں نمی سے بھر گئیں۔ کہنے لگیں کہ میں اس علاقے کے گھر گھر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے جاتی تھی اکثر لوگ تو مسکرا کر عزت سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ آپ نے گھر سے ہمیں ہمیشہ پیار اور عزت ملی۔ آپ سے ایک تعلق سا بن گیا۔ اس لیے آپ کو اپنی خوشی میں شریک کیا۔ میں نے سوچا ہوا تھا جس دن میری بیٹی پہلے دن دفتر جائے گی میں مٹھائی کا ڈبہ خود آپ کو دینے آئوں گی۔ میں آج بھی جب پولیو ورکرز کو گھر گھر پولیو کے قطرے پلانے کے لیے سڑکوں پر گلیوں‘ محلوں میں آتے جاتے دیکھوں تو مجھے ہمیشہ خیال آتا ہے کہ یہ بہت بڑی قومی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آئیں‘ ان کو چائے اور ٹھنڈا پانی پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ایک طرف یہ کم معاوضے پر قومی خدمت کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان پر حملے ہوتے ہیں‘ لوگ اپنے دروازے نہیں کھولتے‘ ان سے سخت الفاظ میں بات کرتے ہیں۔ یہ ان کے ساتھ تو زیادتی ہے ہی خود ایسے ناسمجھ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ بھی ظلم کرتے ہیں۔ پولیو کے دو قطرے بروقت نہ پلانے پر وہ اپنے بچوں کو ساری زندگی کی معذوری اور محرومی دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ پولیو کے ویکسین کے بارے میں غلط باتیں پھیلائی گئیں۔ یہ ویکسینیشن مستقبل میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ یہ لغو اور بے بنیاد خیالات ہیں اوراس سوچ نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ 2017ء تک پولیو کی بیماری 97 فیصد تک پاکستان سے ختم ہو چکی تھی اور پورے پاکستان میں صرف 8 بچے پولیو کا شکار تھے۔ ذرا سا پیچھے جائیں تو 2014ء میں پولیو مریضوں کی تعداد 306 تھی۔ پھر 2015 میں کافی کم ہوئی اور 24 تک آ گئی۔ 2017 میں 8مریض رہ گئے مگر 2018ء میں دوبارہ پولیو پھیلنے لگا۔ اس کی وجہ ناسمجھ والدین کی ہٹ دھرمی جنہوں نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا۔ خدا کے لیے اس بات کو سمجھیں کہ پولیو ایک بیماری ہے اور ایسی بیماری جس کی بروقت روک تھام نہ ہو تو ساری عمر کی محرومی اور معذوری بچے کی زندگی کو اذیت سے دو چار کردیتی ہے۔ اس معذور کا کوئی علاج نہیں۔ کیا آپ چاہتے کہ آپ کا بچہ خدانخواستہ پولیو کا شکار ہو کر کھیلنے کودنے‘ بھاگنے دوڑنے سے محروم ہو جائے اور اپنی عمر کے بچوں کو حسرت سے اٹھکھیلیاں کرتے دیکھے۔ اس وقت پھر آپ اپنے بچے کے اداس چہرے کو مسکراہٹ میں بدلنے کے لیے کچھ نہیں کرسکیں گے۔ یہ اختیار صرف آج آپ کے پاس ہے کہ اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسینیشن ضرور کروائیں۔ اس وقت سب سے زیادہ مریض خیبرپختونخوا میں ہیں۔ وہاں مسجدوں سے اس مہم کا آغاز ہونا چاہیے۔ جمعے کے خطبوں میں اور روزانہ کی نمازوں کے بعد قاری حضرات اور امام مسجد کو چاہیے کہ وہ والدین کو ترغیب دیں کہ اپنے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کا اہتمام کریں اور پولیو کے قطرے پلائیں۔ پولیو ورکرز آپ کے گھر پر دست دیں تو انہیں عزت اور احترام دیں۔ گرم موسم ہے ٹھنڈا شربت پیش کردیں۔ مجھے تو آج بھی پولیو ورکرز دیکھ کر سیاہ عبایہ میں پولیو ورکر لڑکی اور اس کی ہمہ وقت مسکراتی ماں یاد آ جاتی ہیں۔