گزشتہ روز محقق اقبالیات جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی تازہ تالیف مکاتیب ڈاکٹر حمید اللہؒ (بنام محمد طفیل)ملی‘ درویش منش محقق کے طور پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا وجود غنیمت ہے‘ شاعر مشرق علامہ اقبال کی حیات و خدمات پر درجنوں کتابوں کے مصنف ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے تن تنہا وہ کام کیا جو سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے تحقیقی ادارے نہیں کر پائے‘ڈاکٹر حمید اللہ کی عظیم دینی خدمات سے اہل علم واقف ہیں ’’مکاتیب ڈاکٹر حمید اللہ‘‘ مگر اس مرد درویش‘ عظیم محقق کے روزمرہ معمولات‘ دلچسپیوں ‘ انداز فکر اور مقصد حیات کا عکس ہیں۔ مقدمے میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو قابل مطالعہ اور چشم کشا ہے‘ نسل نو ڈاکٹر صاحب سے واقف ہے نہ ان کے علمی کام سے ‘ دل چا ہا کہ پوری زندگی علمی تحقیق اور اسلامی تعلیمات کی توضیح و ترویج میں بسر کرنے والے بے لوث انسان کی شخصیت کے چند پہلو قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر کروں‘ چند سال قبل ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہوا تو پاکستانی اخبارات نے چند سطری خبر شائع کی جو ہماری ملی محرومی اور علمی و صحافتی افلاس کا نمونہ تھی‘ڈاکٹر حمیداللہ کے بارے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب نے ایسا اسلوب حیات (Life style)اپنا رکھا تھا کہ وہ نیند اور کھانے کے علاوہ باقی سارا وقت علمی کاموں اور درس و تبلیغ میں صرف کرتے تھے۔ اللہ پاک نے ان کے وقت میں برکت رکھی تھی۔8دسمبر 1991ء کو پیرس میں ایک ملاقات میں (جس میں راقم کے ساتھ پروفیسر محمد منور‘ عبدالرحمان بزمی اور سہیل عمر بھی موجود تھے)ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ بلا مبالغہ میرے ہاتھ پر سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہو گا۔ ان میں ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ طلبہ ‘پروفیسر‘ عالم فاضل لوگ‘ کچھ سفیر بھی‘ کچھ نانبائی بھی اور اگر آپ یقین کریں تو پیرس میں بعض پادری اور نن بھی مسلمان ہوئے ہیں۔ ’’ڈاکٹر صاحب نے ازراہ مہمان نوازی مجھے (ڈاکٹر محمد یعقوب مغل کو)اپنے گھر کھانے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی انتہائی سادہ اور تکلفات سے دور تھی۔ میں کھانا کھانے چوتھی منزل پر واقع ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں پہنچا۔وہ کمرہ انتہائی سادہ اور کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ جس میں دو سادہ سی چارپائیاں رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جو کھانا کھایا‘ اس میں دال اور سبزیاں تھیں۔ گوشت سے پرہیز لیکن مچھلی کھاتے تھے۔ یہ کمرہ ہی ان کا دیوان خانہ‘ طعام خانہ اور کتاب خانہ تھا۔ کتابیں اتنی کثیر کہ کتابوں کا گودام معلوم ہوتا تھا۔ کمرے میں چولہا(اسٹوو) فرائی پین اور ایک کیتلی مہیا تھی۔ انڈے‘ڈبل روٹی اور مکھن لا کر کمرے میں رکھ چھوڑتے ‘کبھی آلو اُبال کر کھا لیتے۔‘‘ ’’ڈاکٹر محمد حمیداللہ بے حد کشادہ دل مہمان نواز‘ متواضع اور سیر چشم تھے۔ کتابوں کی رائلٹی نہیں لیتے تھے بلکہ ناشر کو کہتے کہ رائلٹی کے بدلے کتاب کی قیمت کم رکھو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے خرید سکیں۔طبیعت میں انکسار‘ خودداری اور تواضع بہت تھی۔ جزرس تھے۔ پیسا بچاتے اور کتابیں خریدتے یا مہمانوں کی تواضع پر خرچ کرتے۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے چند دوستوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ایک ریستوران میں کھانا کھایا اور جب بل ادا کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بل ادا کر چکے ہیں۔‘‘ ’’جامعہ عثمانیہ میں پڑھانا شروع کیا۔ صبح ساڑھے سات بجے کلاسیں شروع ہوتی تھیں۔ پہلے روز یونیورسٹی کی بس میں سوار ہوئے تو دیکھا کہ پانچ طالب علم بھی بس میں بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اگلی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ کنڈیکٹر ٹکٹ دینے کے لئے پہلے انہی کے پاس پہنچا۔ حمید اللہ صاحب نے دس روپے کا نوٹ دیا۔ ٹکٹ دو یا تین آنے کا تھا۔ کنڈیکٹر کہنے لگا۔ ریز گاری نہیں ہے۔ فرمایا میرے اکیلے کا ٹکٹ نہیں بلکہ سب طالب علموں کے ٹکٹ کے پیسے اس میں سے کاٹ لیجیے۔ پھر یہ معمول ہو گیا۔ صبح کی پہلی بس میں جتنے طالب علم ہوتے‘ انہی کے ٹکٹ پر سفر کرتے۔ یہ اطلاع عام ہوئی تو کچھ نادار لڑکوں نے پہلی بس پکڑنی شروع کر دی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کے معمول میں فرق نہیں آیا۔‘‘ ’’جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر پاکستان آنے پر بمشکل رضا مند ہوئے۔ اس زمانے میں پیرس میں متعین پاکستانی سفیر کہتے ہیں کہ چونکہ انہیں دعوت نامہ براہ راست سربراہ مملکت کی جانب سے بھیجا گیا تھا‘ اس لئے انہیں وی آئی پی سلوک بہم پہنچانا ضروری تھا۔ قواعد کے مطابق انہیں پی آئی اے کے طیارے میں اول درجے میں سفر کرنا تھا مگر وہ مصر تھے کہ وہ اکانومی کلاس میں سفر کریں گے۔ اس لئے کہ فرسٹ کلاس میں سفر کرنا بے جا اسراف ہو گا۔بہرحال چونکہ وہ بنیادی طور پرانتہائی خوش اخلاق شخص واقع ہوئے ہیں‘ اس لئے میرے لئے یہ ممکن نہ ہو سکا کہ فرسٹ کلاس میں سفر کے لئے انہیں راضی کر سکوں اور جب میں نے ان سے کہا کہ سفارت خانے کی سٹاف کار انہیں ان کے اپارٹمنٹ سے لے کر ایئر پورٹ پہنچائے گی تو انہوں نے اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موں پارنا (پیرس کا وہ محلہ‘ جہاں وہ رہتے تھے) سے روانہ ہونے والی بس براہ راست اور لی ایئر پورٹ جاتی ہے اور وہ ہمیشہ کی طرح بس ہی سے ایئر پورٹ جائیں گے۔‘‘ ایئر پورٹ پہنچتے ہی انہوں نے ایئر فرانس کا وی آئی پی لائونج استعمال کرنے سے‘ جس کا پہلے سے انتظام کیا جا چکا تھا‘ انکار کر دیا۔ اس بات پر پھر مجھ سے ان کی لفظی تکرار کی نوبت آ گئی اور میرے اصرار پر جب تک وہ وی آئی پی لائونج میں بیٹھے رہے‘ بے حد بے چین رہے جیسے کہ انگاروں پر بیٹھے ہوں۔انہوں نے ایئر فرانس کے سٹاف کو اس بات سے روک دیا کہ وہ مقررہ پروٹوکول کے مطابق ان کا دستی سامان(ہینڈ بیگ) لائونج سے اٹھا کر ہوائی جہاز پر پہنچائیں۔ انہوں نے اس بیگ کو(جو کہ سفر کے لئے ان کا جملہ سامان تھا) اپنے ساتھ ہی چمٹائے رکھا جیسے کہ ان کے لئے ایک بیش قیمت خزانہ ہو۔ انہوں نے مجھے سختی کے ساتھ اس بات سے منع کیا کہ میں انہیں رخصت کرنے کے لئے ہوائی جہاز تک جائوں۔بہرحال چونکہ وہ صدر صاحب کے مہمان کی حیثیت سے سفر کر رہے تھے‘ اس لئے میں ایئر پورٹ پر اس وقت تک بے چینی سے انتظار کرتا رہا جب تک کہ ان کا جہاز روانہ نہ ہوا اور جہاز کے زمینی عملے نے جہاز روانہ ہونے کی توثیق نہ کر دی۔‘‘ ’’یہ بھی تقوے کی بات ہے کہ روپے پیسے کی ہوس سے مبرا تھے۔ ذکر آ چکا ہے کہ کتابوں کی رائلٹی نہیں لیتے تھے۔ حکومت پاکستان نے سیرت پاک پر ان کی عملی خدمات پر دس لاکھ روپے کا ایوارڈ دیا تھا جو انہوں نے ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کو دے دیا۔ ظفر اسحاق انصاری راوی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:اگر میں یہاں لے لیتا تو وہاں کیا ملتا؟‘‘ ’’ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے علمی کمالات اور کارناموں اور ان کی درویشانہ طبع زیست ‘ ان کے فقرو استغناء اور ان کے عجزو انکسار کو دیکھتے ہوئے‘ ذہن بے ساختہ اقبال کے مردِ مومن کی طرف منتقل ہوتا ہے‘ جس کے بارے میں’’مسجد قرطبہ‘‘ میں کہتے ہیں۔ ؎ خاکی و نوری نہاد‘ بندۂ مولاصفات ہر دو جہاں سے غنی‘ اس کا دل بے نیاز اس کی اُمیدیں قلیل‘اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب‘اس کی نگہ دل نواز نرم دمِ گفتگو‘ گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو‘ پاک دل و پاک باز‘‘