سابق مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی مرحوم کی بیوہ نجلاء علی محمود نے یہ کہہ کر ساری اسلامی دنیا کی آنکھوں کو نمناک کر دیا کہ وہ ظالم و غاصب مصری حاکم السیسی سے اپنے شوہر کا جسد خاکی مانگ کر محمد مرسی کو خلد میں شرمسار نہیں کرنا چاہتی۔ محمد مرسی کی یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شریک حیات 2012ء میں جب مصر کی خاتون اول قرار پائیں تو انہوں نے یہ اعزاز قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ وہی السیسی ہیں جنہیں صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے اس وقت کے چیف آف آرمڈ فورسسز محمد حسین طنطاری اور آرمی چیف سامی حفیظ عنان کو اپنے عہدوںسے ہٹا کر نسبتاً ایک چھوٹے فوجی عہدے پر کام کرنے والے جنرل عبدالفتاح السیسی کو نہ صرف فوج کا سربراہ بلکہ وزیر دفاع بھی بنا دیا۔ اسی السیسی نے 2013ء میں صرف ایک سال بعد صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اور اب ان کا جسد خاکی ان کے ورثاء کے سپرد نہ کر کے اپنے محسن کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔ فوجی آمر السیسی کے ڈر کا یہ عالم ہے کہ وہ تقریباً 60ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ اخوانیوں اور دیگر اپوزیشن کارکنوں کو جیل میں ڈال کر بھی کانپ رہا ہے اور محمد مرسی کی آزادانہ نماز جنازہ کی اجازت اس لئے نہیں دے رہا کہ کہیں لاکھوں مصری اپنے محبوب و منتخب قائد کی نماز جنازہ کے لئے جبر کے تمام بندھن توڑ کر امڈ کر نہ آ جائیں۔ سرزمین مصر نے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک سے ایک بڑا فوجی ڈکٹیٹر دیکھا ہے۔ کرنل جمال عبدالناصر پھر انور السادات اور ان کے بعد 30برس تک حکمرانی کرنے والے حسنی مبارک اور اب جنرل السیسی مجھے سعودی عرب میں مصری دوستوں کے ساتھ سعودی وزارت تعلیم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ مصر کے ایک تعلیمی دورے کے دوران وہاں کے حالات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تمام تر آمرانہ ہتھکنڈوں‘ پھانسیوں ‘ ٹارچر سیلوں جیلوں او کینگرو عدالتوں کے ذریعے مصری عوام کے دلوں میں موجزن ایمان کی حرارت اور ان کے جمہوری جذبہ آزادی کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ 2010ء سے لے کر 2011ء تک فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی اور الاخوان المسلمون نے حسنی مبارک کی تیس سالہ بدترین ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بے مثال تحریک چلائی۔ اس تحریک کے نقطہ عروج پر حسنی مبارک نے ظلم کی انتہا کر دی اور 11دنوں میںسینکڑوں آدمی قتل کر دیے۔ تاہم قافلہ سخت جاں آگے ہی بڑھتا چلا گیا حتیٰ کہ حسنی مبارک گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا۔ مصر کی 65سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انتخابات ہوئے تو مصری قوم نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی اور تاروں سے نکلنے کے لئے جو نغمے بیتاب تھے وہ ہر طرف گونجنے لگے اور مصری قوم نے اسلام اور جمہوریت کے حق میں اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے صدر محمد مرسی کو اپنا پہلا جمہوری صدر منتخب کر لیا۔ محمد مرسی کا تعلق مصر کے منطقہ شرقیہ سے تھا وہ ایک فلاح یعنی کسان کے بیٹے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے دیہات میں حاصل کی۔ وہ حافظ قرآن بھی تھے۔ انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں بی ایس سی اور پھر ایم ایس سی کی اور پھر وہ اپنی اعلیٰ قابلیت کی بنا پر سرکاری سکالر شپ پر ڈاکٹریٹ کرنے امریکہ کی یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا گئے۔ وہاں سے1982ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 2012ء میں صدر منتخب ہوتے ہی صدر محمد مرسی نے مصر میں بلاتاخیر ان معاشی و جمہوری اصلاحات کی طرف توجہ دی جنہیں فوجی آمروں نے پس پشت ڈالا ہوا تھا۔ انہوں نے مصر کو نئی بلندیوں سے آشنا کرنے کے لئے فوری فیصلے کئے وہ آئی ایم ایف کی توہین آمیز شرائط کی طرف جانے کی بجائے بھائیوں اور دوستوں کا دست تعاون قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ قطر نے بصد مسرت مصر کو 8بلین ڈالر کی اقتصادی سرمایہ کاری کی پیشکش کی اسی طرح ایک یورپین بنک نے ایک بلین پائونڈ بطور قرض دینے کا وعدہ کیا۔ ترکی نے بھی ہر طرح کی امداد کرنے کا یقین دلایا اس کے ساتھ یہ محمد مرسی نے دستور کو اسلامی و جمہوری بنانے کے لئے بھی پارلیمانی اقدامات کئے۔ مصر کی یہ نئی جہت اور آمریت کے مارے ہوئے اس آزاد منش اسلامی ملک کی نئی بلندیوں کی طرف یہ اٹھان اسرائیل کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ اسرائیلی صدر نیتن یاہو نے کچھ عرصہ پہلے جاری ہونے والے اپنے ایک بیان ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ہم نے منتخب مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی سے رابطہ کیا اور اسرائیل کے ساتھ مزید تعاون بڑھانے کی بات کی تو منتخب صدر نے ہمیں دو ٹوک جواب دیا کہ پہلے فلسطین کی آزادی اور پھر کوئی اور بات۔ اس جواب کے بعد ہم نے امریکہ‘ مصر کی فوجی قوتوں اور عرب دنیا میں امریکی اتحادیوں سے مل کر اس منتخب حکومت سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسلامی دنیا کے فوجی افسران تو ایسے کسی موقع کی تلاش میں رہتے ہی۔ جنرل عبدالفتاح السیسی نے فی الفور آلہ کار بننے کا فیصلہ کر لیا۔ مصر کی کچھ اپوزیشن جماعتوں کو اکسا کر ڈاکٹر محمد مرسی کی جمہوری دستوری اصلاحات اور اسلامی دفعات کے خلاف احتجاجی جلوس نکلوائے گئے اور پھر 3جولائی 2013ء کو جنرل عبدالفتاح السیسی نے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس پر منتخب حکومت کے حامیوں نے شدید احتجاج کیا تو محسن کشی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے جنرل السیسی نے ایک روز میں 817انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہزاروں جیلوں میں ہیں ہزاروں کو لاپتہ کر دیا گیا۔ یا قتل کر دیا گیا۔ منتخب صدر کو پہلے اسکندریہ کے قریب ایک جیل میں رکھا گیا اور پھر دور دراز کے ایک ایسے قید خانے میں پہنچا دیا گیا جسے عرف عام میں ’’بچھو جیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس جیل کے ایک وارڈن نے کہا ہے کہ یہ سیاست دانوں کے لئے بنائی گئی ہے یہاں جو آتا ہے وہ مر کر ہی یہاں سے نکلتا ہے۔ 6برس میں قید تنہائی کی اذیت سے دوچار محمد مرسی کو ان کے طبیبوں سے ملنے دیا گیا نہ ان کے وکلا سے اور نہ ہی ان کے گھروالوں کو ملاقات کرنے دی گئی سوائے تین چار مرتبہ بہت مختصر وقت کے لئے۔ محمد مرسی شوگر‘ ہائی بلڈ پریشر اور جگر کی بیماریوں کا شکار تھے ۔ اسلامی ملکوںمیں فوجی آمریتوں کے بارے میں مفسر قرآن اور بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے نہایت ہی حقیقت پسندانہ اور عالمانہ تجزیہ کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اسلامی ملکوں کی فوجوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ آمریت کا اصل انحصار ان کی طاقت پر ہے، اسی احساس کے تحت فوجی افسران خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے الٹے ہیں۔ اپنے ہی ملکوں کو فتح کرتے ہیں اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں…‘‘ مصری فوجی آمر السیسی کی نام نہاد عدالتوں نے جرم بے گناہی میں صدر محمد مرسی کو 4مرتبہ سزائے موت اور 48برس کی قید سنائی تھی۔ 2015ء میں السیسی نے سزائے موت پر اس لئے عملدرآمد نہ کیا کہ اس طرح منتخب صدر کو اس سے بھی بڑا یعنی شہادت کا مرتبہ حاصل ہو جائے گا جس طرح کے اذیت ناک حالات میں صدر مرسی کو رکھا گیا اور بعض اطلاعات کے مطابق انہیں کم مقدار زہر دیا جاتا رہا وہ انہیں شہید کرنے کی ہی مترادف تھا۔ جنرل السیسی اپنی توپوں اور بندوقوں سے بیچارے بے بس اور مجبور اہل مصر کو اپنے محبوب رہنما ڈاکٹر محمد مرسی شہید کا جنازہ نہ پڑھنے دیا مگر سارے عالم اسلام بلکہ غیر مسلم دنیا میں بھی ان کی غائبانہ نمازجنازہ ادا کی جا رہی ہے اور انہیں سیمیناروں میں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے فوجی ڈکٹیٹروں کو آمروں کا انجام دیکھنے کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ لیبیا و عراق کی مثالیں ان کے سامنے ہیں۔ ہم ڈاکٹر محمد مرسی کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی بلندی درجات کے لئے دعا کرتے ہیں۔