پاکستانی سیاست و صحافت اپنے آدرش یا آئیڈئل کے معاملے میں اسقدر گر جائے گی کہ اس کے ہاں قیادت کا معیار عرفِ عام میں ’’Crowd Puller‘‘ یعنی بھیڑ جمع کرنے والے بن جائیں گے۔ بھیڑ یعنی Crowd، دنیا کی ہر زبان میںایک غیر منظم اور بکھرے ہوئے انسانوں کے جتھے کو کہتے ہیںجو بغیرکسی ترتیب اور مقصد کے، ایک جگہ جمع ہو جائیں۔ بازاروں میں لوگوں کے ہجوم کو بھی ’’بھیڑ ‘‘کہتے ہیں، کیونکہ ہر کوئی اپنے اپنے کام سے وہاں کا رُخ کرتا ہے۔ بازار ویسے بھی ہر طرح کے افراد کی ضروریات بہم پہنچانے کی جگہ ہوتی ہے۔ گھر کا سودا سلف خریدنے،حجام سے بال کٹوانے،وقت کاٹنے کے لیے کسی چائے خانے کا رُخ کرنے، تھیٹر یا سینما ہال میں تفریح کرنے،اپنی پسند کا کھانا کھانے یا کوئی نئی کتاب یا رسالہ خریدنے والے سب کے سب اسی ایک بازار کا رُخ کرتے ہیں،جو ان کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ہر کسی کی منزل ایک ہوتی ہے لیکن مقاصد جدا۔جس کا جس وقت بھی کام پورا ہو جاتا ہے،وہ اپنے گھر کی راہ لیتا ہے۔بھیڑ یا( Crowd) کی نفسیات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور دنیا بھر کے معاشرتی نفسیات پر لکھنے والے بھیڑ کی اجتماعی حالت پر تبصرہ کرتے رہے ہیں۔ بھیڑ میں موجود لوگ ذرا سے خوف میں ایک دم تتر بتر ہوجاتے ہیں، کسی تماشے کی جگہ پر بلا مقصد جمع ہو تے ہیں،کوئی حادثہ ہو جائے یا آگ لگ جائے،یہ اس صورتحال کا لطف لینے ضرور اکٹھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی جگہ لوٹ مار ہو رہی ہو تو بھیڑ میں سے قسمت آزمائی کرنے والے بھی بے شمار پہنچ جائیں گے،جو ہاتھ لگے اٹھائیں گے اور اپنے گھر کی راہ لیں گے۔بھیڑ دنیا بھر میں ایک بے مقصد یا بہت سارے بے ربط مقاصد کے لیے ایک جگہ جمع ہونے والے افراد کے ہجوم کو کہتے ہیں۔ جس کسی نے بھی گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی سیاست کے جلسوں میں’’جلوہ افروز‘‘ہونے والے نوآموز اور نومولود لیڈروں کو بھیڑ جمع کرنے والے (Crowd Puller)کہہ کر پکارا ہے،اس نے بالکل درست نام رکھا ہے۔ لیکن ملک کی بدقسمتی اور معیارات کی گراوٹ کا عالم یہ ہے کہ ایسے لیڈر جن کے اردگر ایسی بھیڑ جمع ہوجاتی ہے، اسے صحافی لوگ مستقبل کی امید بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ لیڈراپنے آپ کو لینن، ماوزے تنگ یا نیلسن منڈیلا کا ہم پلہ سمجھنے لگتے ہیں۔ خوشامد ایک ایسا خوبصورت جال ہے جو ان لیڈروں کو احساس برتری کے ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کرتا ہے کہ وہ اندھے ہو جاتے ہیںاور جب ان کی امیدیں ٹوٹتی ہیں تو ان کے چہرے کے رنگ ان کے اندر کی شکست کا برملا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین اظہار پی ڈی ایم کے جلسے میں سٹیج پر نمودار ہونے والی مریم نوازاور دیگرکے چہرے پر نظر آیا تھا اور ٹھیک اسی مینارِ پاکستان پر آج سے چند سال قبل عمران خان کے چہرے پر اسوقت عیاں ہوا تھا، جب وہ لانگ مارچ پر روانہ ہونے کے لیے اپنے ساتھ مطلوبہ تعداد کی کمی کودیکھ رہے تھے۔ ایسے لیڈروں پر یہ مایوس لمحے اس لیے آتے ہیں کہ ان کے اردگرد جمع ہونے والے لوگ انہیں یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان کے دیوانوں، فرزانوں اور پروانوں کی ایسی ہے جو ان پر اپنی جان نچھاور کر سکتے ہیں۔ صحافی ،کالم نگار، ادیب اور دانشور ان لیڈروں کے سامنے ان کی تصویر اس طرح کی بے عیب اور خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں کہ انہیں اپنے آپ سے محبت ہو جاتی ہے۔ یہ اہلِ قلم ان جیسے سطحی (Shallow)لیڈران کی مجبوری ہوتے ہیں۔ یہ ان کی تقریریں لکھتے ہیں، انہیں ایسے فقرے بنا بنا کر دیتے ہیں جس سے ہجوم تالیوں سے گونج اٹھے، انہیں عالمی، مقامی، علاقائی اور ملکی سیاست کو آسان لفظوں میں بیان کر کے انہیں یہ باور کروادیتے ہیں کہ اب دنیا بھر کی سیاست گری کو وہ خوب سمجھ چکے ہیں۔ یہ تمام ’’اہلِ قلم‘‘ ان سطحی لیڈروں کے لیے ’’گیٹ تھرو گائیڈ‘‘ کی طرح ہوتے ہیں جو پڑھائی سے دور رہنے والے طالب علموں کے لیے صرف امتحان پاس کرنے لیے چھاپی جاتی ہیں۔ان ’’اہل قلم‘‘ افراد کی دال کسی ذہین، پڑھے لکھے اور حقیقی لیڈر کے سامنے نہیں گلتی۔یہ کبھی مولانا مودودی، ابولکلام آزاد، عطا اللہ شاہ بخاری، جواہر لال نہرو، مہاتما گاندھی، محمد علی جوہرِ، حسرت موہانی، نواب بہادر یار جنگ، لیاقت علی خان، سردار عبد الرب نشتر، شاہ احمد نورانی اور اس قبیل کے بے شمار لیڈروں کے اردگرد کبھی جمع نہیں ہو سکے۔ ان کا کوئی سراغ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے آس پاس بھی نظر نہیں آتا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیت سے بھی پرے پرے رہتے تھے۔ برصغیر اور پاکستان کی گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ ایسے قد آور لیڈروں سے بھری ہوئی ہے کہ اس خطے کے تمام اہلِ قلم خود ان سے علم کی روشنی لیتے تھے لیکن اب یہ عالم ہے کہ اب ’’معمولی دانشور‘‘ ان لیڈروں کے استاد بنے بیٹھے ہیں۔ نو آبادیاتی دور میں کسی اور خطے نے اتنے بڑے بڑے صاحب علم رہنما اور لیڈر پیدا نہیں کیے جتنے برصغیر نے کیے ہیں۔ ایران، عراق ، عرب دنیا، فلپائن، کوریا، ملائشیا، انڈونیشیا اور برما یہ سب برصغیر کے پڑوس کے ملک ہیں، لیکن برصغیر جیسی قدآور شخصیات کی ایک بھی ہم پلہ شخصیت وہاں پیدا نہ ہوسکی۔ یہی نہیں بلکہ ادب و فن کی دنیا کے بھی روشن ستارے اسی دھرتی پر جگمگائے۔حالی و اقبال سے فیض اورمنیر نیازی تک، منشی پریم چند و ڈپٹی نذیر احمد سے کرشن چندر، بیدی، منٹو اور احمد ندیم قاسمی تک، استا اللہ بخش سے چغتائی اور صادقین تک، کون نہیںتھا جو اپنی روشنی سے عالم کو نہیں جگمگاتا تھا۔ ان لوگوں کے سامنے کسی خوشامدی اہلِ قلم کا چراغ جل ہی نہیںسکتا تھا۔ خوشامدکے ہنر کو چار چاند تو سطحی، کم علم اور بے مقصد لیڈروں نے لگائے ہیں جن کے دماغوں میں صرف ایک ہی پاگل پن سوار ہے کہ اقتدار کی کرسی پر کب ان کی سواری اترے گی۔ موجودہ دور کی سطحی سیاسی قیادت کے ساتھ جو سب سے بڑا دھوکہ میرے ملک کا خوشامدی طبقہ کرتا رہا ہے۔ وہ انہیں یقین دلاتا رہتا ہے کہ یہ بھیڑ جو ان کے اردگرد جمع ہو رہی ہے یہ آپ کے ’’نظریے‘‘ اور موجودہ الفاظ میں ’’بیانیے‘‘ کے لیئے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔انہیں اس بات کا ادراک تک نہیں کہ جمہوری سیاست تو تخلیق ہی اسی لیے کی گئی ہے کہ تحریکوں کا راستہ روکا جا ئے۔جمہوری سیاسی نظام میں تو جان ایف کینڈی اور بل کلنٹن کو خواتین صرف خوبصورتی پر فریفتہ ہونے کے لیے ووٹ دیتی ہیں۔ اب تو دنیا بھر کے فیشن میگزینوں میں ایک حصہ ان خواتین سیاسی رہنماؤں کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے جو اپنی دلکشی اور خوبصورتی کی وجہ سے اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہوتی ہیں۔جمہوریت سطحی (Shallow) اور عام (Mediocre) رہنماؤں کی دنیا ہے۔ جمہوری دنیا کے سیاسی مظاہرے بھی تحریکی انداز نہیں بلکہ فیملی فیشن پریڈ بن چکے ہیں۔ بچے،عورتیں، مرد، بوڑھے، بینڈ بجاتے، گیت گاتے، رقص کرتے ہوئے جلوس میں دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ ایسے میں جن لوگوں نے بھی مریم نواز، بلاول بھٹواور دیگر کو یہ تاثر دیا تھا کہ جو بھیڑ ان کے اردگرد جمع ہوئی ہے وہ تحریک کا آغاز ہے، انہوں نے ان کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔ یہ ویسے ہی خوشامدی ہیں جنہوں نے عمران خان کو 2014ء میں 126دن دھرنے پر اس امید پر بٹھا دیا تھا کہ اب اس کی قیادت میں انقلاب دستک دے گا۔ پاکستان کی پوری سیاسی برادری یا دیگر الفاظ میں ’’سیاسی لیڈروں کے جتھے‘‘ کواگر علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے کے بعد بھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ بھیڑ جمع کرنے والے (Crowd Puller) اور ایک مقصد کے لیے لوگوں کو ایک منزل کی جانب اکٹھا کرنے والے تحریک ساز میں کیا فرق ہوتا ہے، تو پھر کوئی ان کو کچھ بھی نہیں سمجھا سکتا۔