سندھ کی سیاست اس وقت جزیروں پر محدود ہوگئی ہے۔ وہ جزیرے جو کراچی کے ساحل سمندر سے اتنے دور ہیں کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے آپ کو کشتی میں پونے گھنٹے تک سفر کرنا پڑے گا۔ ان جزائر میں سب سے بڑے جزیرے کا نام ’’بھنڈار‘‘ ہے۔ بھنڈار آج نہیں بلکہ کافی وقت سے لینڈ مافیا کی آنکھوں میں تیر رہا ہے۔ وہ یہاں پر ایک مہنگا ترین شہر آباد کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ مشرف کے دور میں جب سندھ کا وزیر اعلی ارباب رحیم تھا، اس وقت بھی اس ایشو نے سر اٹھایا تھا مگر وہ منصوبہ عمل میں نہ آ سکا۔ اس بار وفاقی حکومت نے جب ان جزائر کو آباد کرنے کے سلسلے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی تو حکومت سندھ نے خوشی خوشی یہ جزائر وفاقی حکومت کے حوالے کردیے مگر جب سوشل میڈیا پر یہ خبر بریک ہوئی کہ سندھ کے جزائر پر وفاقی حکومت قبضہ کرنے کے بارے کی قانونی کوشش کر رہی ہے تو سندھی قومپرستی ایک بار پھر بپھر گئی اور پیپلز پارٹی کو دباؤ میں لانے لگی ۔ وہ اس کی مخالفت کرے۔ اس وقت تک سندھ کے قومپرست حلقے نہیں جانتے تھے کہ حکومت سندھ نے پہلے ہی یہ جزائر قاسم پورٹ کے معرفت وفاقی حکومت کے حوالے کر دیے ہیں۔ جب وہ لیٹر سوشل میڈیا پر ظاہر ہوا تو پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ کے قومپرست حلقوں میں احتجاج کی لہر اٹھی اور ماحول کا منظر دیکھ کر بلاول بھٹو زرداری نے مذکورہ جزائر کو کسی بھی صورت وفاقی حکومت کے حوالے نہ کرنے کے سلسلے میں بہت بڑی جدو جہد کرنے کا اعلان کردیا۔ اس طرح پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھروہ لطیفہ زندہ ہوگیا جس کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ’’ہن ہن خبر آئی ہے؛ خضر ساڈا بھائی ہے‘‘۔ سندھ کے قومپرستوں کو جو بھی خبر ملتی ہے وہ ایک تو ادھوری ملتی ہے اور دوسرا دیر سے ملتی ہے۔ اس صورتحال پر سندھی زبان میں ایک فلمی گیت بھی ہے: ’’لٹ گیا میرا پیار ا/یہ خبر مجھے بڑی دیر سے ملی‘‘ سندھ کے قومپرست اس وقت پیپلز پارٹی پر تنقید کے تیر چلا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی اپنا ابتدائی جاری کردہ لیٹر رد کرتے ہوئے ان جزائر کو کسی بھی صورت وفاقی حکومت کو نہ دینے کے اعلانات کر رہی ہے۔کیا پیپلز پارٹی اپنے تازہ موقف پر قائم رہے گی؟یہ سوال سن کر ہر سینئر سیاسی مبصر مسکرا دیتا ہے۔ اس مسکراہٹ میں جواب موجود ہوتا ہے۔کراچی میں آبادی کے اضافے کی وجہ سے زمین بہت تنگ ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے بلڈر مافیا نے لینڈ مافیا سے مل کر مٹی سے سونا پیدا کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ یہ بلڈر مافیا اور لینڈ مافیا کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے کراچی کے قدیم پانی کے بہاؤ کے راستوں پر تعمیرات ہونے کی وجہ سے شہر کا سب سے پوش علاقہ ڈیفنس حالیہ بارشوں میں ڈوب گیا تھا۔کراچی کے ساحل سمندر پر زبردستی ایک نیا فیز بنانے کے بعد جب وہ دیکھ رہے ہیں کہ زمین کہیں نہیں بچی تو وہ جزائر پر تعمیراتی منصوبے بنا رہے ہیں۔ اس کام میں سب سے زیادہ دلچسپی کس کی ہو سکتی ہے؟ وہ کسی سے مخفی نہیں۔سندھ کی قومپرستی بھی عجیب ہے۔ اس وقت اس کا نعرہ ہے کہ مذکورہ جزائر وفاقی حکومت کے حوالے نہ کیے جائیں۔ یہ سندھ حکومت کے پاس ہونے چاہئیں۔۔ کتنی عجیب بات ہے!! قومپرستی کی اس صورت کو دیکھ کر شیخ ایاز نے لکھا ہے ’’اس قدر تنگ نظری کہ اگر دیوتا دیس کی مٹی سے نہیں بنا تو دیوتا ہی نہیں ہے!!؟‘‘سندھ کی قومپرست اور وفاقی سیاست کرنے والی اکثر جماعتیں اس وقت جزیرہ جزیرہ گیم کھیلنے میں مصروف ہیں۔ کوئی اس منصوبے کے حق میں ہے اور کوئی نہیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی نے اس منصوبے کو گیم چینجر قرار دیا ہے۔ مگر اس سوال یہ ہے کہ ان جزائر پر بہت بڑے منصوبوں کے خواب دیکھنے والوں کو اس جزائر کے آس پاس وہ لاکھوں لوگ نظر کیوں نہیں آتے جو صدیوں سے اس ساحل پر مقیم ہیں۔ میں ان مچھیروں کی بات کر رہا ہوں جن کے حالات زندگی وقت کے ساتھ بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔یہ لوگ کراچی کے سب سے قدیم شہری ہیں۔ ان لوگوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ مگر یہ شہر نئے آنے والوں سے بھرتا گیا اور اس شہر کے پرانے باسیوں کو اس وقت دو وقت کا کھانا نہیں ملتا۔وہ مچھیرے جو مچھلی کے لیے گہرے پانی میں جاتے ہیں اور اکثر بھارتی بحری پولیس انہیں کشتیوں سمیت پکڑ کر لے جاتی ہیں اور وہ برسوں بھارتی جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں،ان پر زندگی کا بوجھ کم کرنے کے سلسلے میں کسی جماعت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کو جزائر سے مطلب ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کو سمندری ٹھیکوں سے مطلب ہے۔ ان کو لوگوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو سمندر کے کنارے جنم لیتے ہیں اور سمندر کی لہروں سے لڑتے لڑتے مر جاتے ہیں۔ ان مچھیروں کی بستیوں میں صحت اور تعلیم کے حالات کس قدر برے ہیں؟ یہ پتہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ساحلوں کا فضائی جائزہ لینے سے معلوم نہیں ہو سکتا۔ یہ علم صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی کراچی کی ساحلی بستیوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں چلے اور اپنی آنکھوں سے وہ مناظر دیکھے جو بھارتی ریاست کیرالا کے ملیالم ادب میں تکشی شو شنکر نے اپنے بہت خوبصورت ناول ’’سمندر کی سنتان‘‘ میں لکھے ہیں۔ دنیا کے ہر ساحل پر بسنے والے مچھیروں میں بہت ساری باتیں مشترکہ ہوتی ہیں اور کچھ ان کے اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں۔ مگر یہ لوگ کس طرح زندگی کی سختی کو جھیلتے ہیں؟ اس کا بیان ملیالم ادب کے شاہکار ناول ’’سمندر کی سنتان‘‘ میں بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ اگر ملازمت میرے پیروں میں زنجیر نہیں ڈالتی تو میں اپنے ملک کے ساحلوں پر کسی نئے ناول کی تلاش میں نکل جاتا۔ ان ساحلوں پر زخموں سے بھرپور زندگی موجود ہے۔یہ لوگ کس طرح جیتے ہیں؟ یہ لوگ کس طرح کئی دنوں تک گہرے پانیوں میں مچھلی کا شکار کرتے ہیں؟ اس کے لیے یا تو سیاست کو پیٹھ دیکر کراچی کے قدیم ساحلوں کا رخ کیا جائے یا گھر کی خاموشی میں بیٹھ کر تکشی شو شنکرکا ناول ’’سمندر کی سنتان‘‘ یعنی سمندر کی اولاد پڑھا جائے اور اپنے آپ کو جیون کی نیا میں ڈولتا ہوا محسوس کیا جائے اور ذہنی طور پر ہی سہی مگر ان گندے سیاسی حالات سے باہر نکلا جائے جومچھیروں کی بستیوں سے زیادہ بدبودار ہیں۔