تمام افواہیں دَم توڑ گئیں، قیاس آرائیاں دفن ہو گئیں اور تبصرے اپنی موت آپ مر گئے۔ طالبان نے اعلان کر دیا کہ افغانستان کی حکومت کا نام ’’اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ ہو گا اور اس کے سربراہ شیخ الحدیث مولانا ہبتہ اللہ اخوند زادہ ہوں گے جن کے ہاتھ پر طالبان نے آج سے پانچ سال قبل بیعت کی تھی اور ان کی قیادت میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے خلاف نظامِ شریعت اور اعلائے کلمتہ الحق کیلئے جہاد کیا تھا۔ اس بیس سالہ عظیم جہاد میں بے شمار ایسے مواقع آئے جب طالبان کو افغانستان میں قائم امریکی ’’کاسہ لیسی‘‘ نظام کا حصہ بن کر اقتدار میں شریک ہونے کیلئے کہا گیا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ابھی امریکہ کو افغانستان پر حملے کئے صرف آٹھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ جون 2002ء میں تقریباً پندرہ سو افغان قبائلی اور سیاسی رہنمائوں کو جرمنی میں اکٹھا کیا گیا تاکہ افغانستان میں ایک جمہوری، آئینی اور پارلیمانی قسم کی حکومت قائم کی جائے۔ طالبان کو بھی اس میں شرکت کیلئے کہا گیا اور حامد کرزئی جس کی امریکہ کے ساتھ پہلے ہی سے سربراہی کے حوالے خفیہ ’’ڈیل‘‘ ہو چکی تھی، اس نے بہت زور لگایا لیکن ایک تو طالبان اس وقت خود غیر مجتمع تھے اور دوسرا وہ کسی ایسے نظام کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے، جس کے خلاف وہ جہاد کر رہے تھے۔ لوئی جرگہ یعنی قبائلی عصبیت کے علمبردار سرداروں ’’مشران‘‘ کے ہجوم سے آئین منظور کروایا گیا جس کے تحت 2004ء نومبر کے الیکشنوں میں بھی طالبان کو جمہوری ’’مین سٹریم‘‘ میں آنے کی دعوت دی گئی لیکن وہ شریک نہ ہوئے۔ اس کے بعد جب بھی الیکشن ہوئے، طالبان کو افغانستان کے جمہوری نظام میں حصہ لے کر اقتدار میں آنے کا لالچ دیا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ جہاد کے پہلے دس سال گزر تے ہی امریکہ اور نیٹو فورس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ جنگ جیتنا ناممکن ہے، مگر انہی کی قائم کردہ افغانستان حکومت کے گروہ انہیں یقین دلاتے رہے کہ اگر آپ ہمیں عسکری طور پر مضبوط کر دیں، جدید اسلحہ سے لیس کر دیں تو ہم ان ’’مٹھی بھر‘‘ طالبان سے خود نمٹ لیں گے۔ امریکیوں کو ان پر بالکل یقین نہیں تھا۔ کیونکہ اس وقت تک افغان افواج کی کرپشن اور اسلحہ بیچنے کی رپورٹیں امریکی انتظامیہ میں عام ہو چکی تھیں۔ امریکہ نے عزت سے نکلنے کیلئے جنوری 2012ء کو طالبان سے رابطہ کیا اور براہِ راست مذاکرات کی دعوت دی جس پر طالبان دبئی میں اپنا دفتر کھولنے پر راضی ہو گئے۔ مگر امریکی پینٹا گون، دفاعی ٹھیکیدار اور افغان سکیورٹی فورسز جیسے گروہ ان مذاکرات کے سخت مخالف تھے۔ انہوں نے حالات خراب کرنے کیلئے پے در پے واقعات کروائے۔ آغاز فروری 2012ء میں بگرام جیل سے ہوا، جہاں قرآن پاک کے نسخے یہ کہہ کر جلائے گئے کہ ان میں شدت پسند مواد موجود ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں 30 افراد شہید ہوئے اور دو سپاہی بھی مارے گئے۔ دو ہفتوں کے بعد ایک امریکی سارجنٹ رابرٹ بیلز نے قندھار کے ضلع پنجوائی میں عام شہریوں پر بلا وجہ فائر کھول دیا اور 16 لوگوں کو شہید کر دیا۔ میدانِ جنگ جو ذرا خاموش ہوا ہی تھا ایک بار پھر گرم ہو گیا اور طالبان نے ’’بہار کے جہاد‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے کابل کے سفارتی علاقے پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد سے ہر دن طالبان کی بالادستی اور فتح و نصرت کا دن اور امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کی پلاننگ کا دن بن گیا۔ جون 2013ء میں طالبان نے قطر کے شہر دوہا میں باقاعدہ دفتر کھول کر اس پر اماراتِ اسلامی افغانستان کا پرچم لہرا دیا۔ ساتھ ہی نیٹو نے 2014ء کے آخر تک اپنی افواج واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ افغان سکیورٹی فورس اور افغان حکومت کی کرپشن کو روکنے کیلئے جولائی میں ٹوکیو میں ’’ڈونر کانفرنس‘‘ بلائی گئی جس میں امریکہ، جاپان، جرمنی اور برطانیہ نے افغان حکومت کیلئے 16 ارب ڈالر منظور کئے تاکہ وہ انہیں خرچ کریں، ان سے اپنا ’’پاپی‘‘ پیٹ بھریں لیکن دفاعی ہتھیاروں کو نہ بیچیں۔ اس فیصلے کے بعد امریکہ اور اتحادی افواج نے افغانستان کا زیادہ تر کنٹرول ’’بڑھکیں‘‘ مارنے والی افغان سکیورٹی فورس کو دے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ، نیٹو، بھارت اور ایران نے کبھی ایک دن کیلئے بھی افغان سکیورٹی فورسز کی مدد سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ انہیں مکمل مدد فراہم کی یہاں تک کہ ان کے شانہ بشانہ لڑے بھی، اس کے باوجود امریکی ’’آشیر باد‘‘ سے قائم ہونے والی افغان حکومت اپنے لوگوں کی بزدلی اور کرپشن کے بوجھ تلے ڈوبتی چلی گئی۔ اب وہ عوام کی اکثریت کی نظروں میں ایک بددیانت، نااہل اور بکائو حکومت کے طور پر مسلمہ ہو چکی تھی اور لوگ 1995ء سے 2001ء تک کے اس چھ سالہ طالبان کے دورِ حکومت کو یاد کرتے تھے جب افغانستان میں امن بھی تھا اور خوشحالی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب مذاکرات کے دوران عید کے موقع پر پندرہ روز کیلئے طالبان نے سیز فائر کا اعلان کیا تو کابل کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے طالبان کے گرد لوگ ایک عالمِ محبت میں اکٹھے ہونے لگے، یہاں تک کہ عورتوں نے بھی ان کے ساتھ سیلفیاں بنوائیں۔ یہ بیس سالہ جہاد، انسانی تاریخ میں ایک عظیم ’’عرصۂ جنگ‘‘ ہے جس پر آنے والا مؤرخ بہت کچھ لکھے گا۔ ابھی تو برطانیہ اور سوویت یونین جیسی ’’سپر پاورز‘‘ کی شکست کی افغانستان میں کہانیاں ہی ختم نہیں ہوئیں۔ ہر روز ایک نیا پہلو نکل آتا ہے۔ اس فتح کے بعد اب اسے ناکام کرنے کیلئے سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ ان میں سب سے اہم سازش حکومت سازی کی نوعیت پر بحث اور پھر وسیع البنیادی کا چورن ہے۔ پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح طالبان بے شک تمام شرعی قوانین نافذ کر لیں لیکن نظامِ حکومت آئینی، جمہوری اور پارلیمانی پر راضی ہو جائیں۔ وہی منافقت کہ آئین اگر قرآن و سنت کو سپریم مانتا ہے تو فی الحال ٹھیک ہے، کل ووٹ کے ذریعے اسے پارلیمنٹ کی اکثریت سے بدلوا لیں گے۔ وسیع البنیاد حکومت بنانے کا چورن شروع میں بیچا گیا تاکہ طالبان کو دیگر گروہوں کی طرح محض ایک حکومتی فریق کی حیثیت حاصل ہو جائے۔ مذاکرات تاخیر کا شکار کئے گئے تاکہ افغان سکیورٹی فورسز زیادہ سے زیادہ علاقہ قابو میں لے کر حکومت میں بڑا حصہ مانگنے کے قابل ہو جائیں، لیکن طالبان کی فتوحات نے یہ گیم ہی اُلٹ دی۔ پہلے انہوں نے نوے فیصد افغانستان پر اپنا اقتدار مستحکم کیا اور بالآخر جب وہ کابل میں داخل ہوئے تو پھر ان تمام گروہوں کو دعوت دی کہ آئو، جس کے پاس جتنا افغانستان ہے، یا جسے جتنے عوام کی حمایت حاصل ہے حکومت میں اتنے حصے کا مطالبہ کرے۔ اس کشمکش میں ابھی بھی جمہوریت پرست تجزیہ نگار عبوری حکومت کے نام بتائے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے تجزیہ نگاروں کی خواہش ایک ہی ہے کہ کم از کم حکومت کا نام اور اصطلاحات کی حد تک تو جمہوری ہوں، جیسے صدر، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ وغیرہ۔ لیکن دُنیا بھر کے ان سیاسی قائدین اور تجزیہ نگاروں کو علم نہیں کہ طالبان کی ساری تحریک جسے قائم ہوئے 28 سال ہو چکے ہیں، عمرِ ثالث، ملا محمد عمر ؒمجاہد کے ہاتھ پر بیعت سے قائم ہوئی تھی اور آج بھی وہ امیر المومنین مولانا ہبتہ اللہ اخوند زادہ کی بیعت میں ہی منظم ہیں۔ امیر کی موجودگی میں کسی اور کی سربراہی کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ اس راز کو حامد کرزئی، گلبدین حکمت یار اور عبداللہ عبداللہ خوب جان چکے ہیں۔ اس لئے وہ آج نئی بننے والی حکومت کیلئے ان کے ساتھ مذاکرات میں ہیں۔ باقی رہا احمد شاہ مسعود کا بیٹا، تو اسے بھی معلوم ہے کہ اگر تاجکستان کی سرحد کا کنٹرول ہی طالبان کے پاس ہے تو پھر پنجشیر وادی میں اس کی حیثیت تو ایک گھرے ہوئے ’’ہرن‘‘ جیسی ہے جو جہاں تک بھاگے، ایک دن پکڑا جائے گا۔ اس کا اعلان بھی حکومت سے اپنا حصہ زیادہ کرنے کیلئے ہے۔ یہ سب کچھ اماراتِ اسلامی افغانستان کے اس سفید پرچم تلے ہو گا جس پر کلمۂ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺ کا ’’رایہ‘‘ یعنی حالتِ جنگ کا جھنڈا سیاہ اور ’’لوائ‘‘ یعنی حالتِ امن کا جھنڈا سفید تھا، دونوں پر کلمہ لکھا ہوا تھا۔‘‘ اس کے علاوہ تمام جھنڈوں کو رسول اللہ ﷺ نے اندھے جھنڈے قرار دیا۔ فرمایا ’’جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے عصبیت کے سبب غضب ناک ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی ‘‘(نسائی، مسند احمد)۔ اسی لئے افغان قوم پرست تعصب کی علامت جھنڈے کو تبدیل کر کے کلمہ طیبہ والا جھنڈا لہرا دیا گیا۔