ہمارے سولہ ستمبر اتوار کے کالم کا عنوان تھا،،یادوں کی برسات،، خیال تھااگلا کالم اسی کے تسلسل میں لکھیں گے،میدان سیاست میں اہم واقعات کے باعث ہم یہ وعدہ پورا نہ کر سکے، لہٰذا آج مداوا کر رہے ہیں۔ مذکورہ کالم کا عنوان تھا،، ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، گمان بھی نہ تھا اتنی پذیرائی ملے گی، آپ سب کی عزت افزائی کا شکریہ، سوچا ، میری عمر میرے چال چلن سے میل نہیں کھاتی ،چھوٹی بڑی عمر کے لوگوں میں جلد ایڈجسٹ ہوجاتا ہوں، بڑی عمر کے لوگوں میں بیٹھ جاؤں تو وہ انتظار کرتے ہیں کہ کب اٹھوں گا، تاکہ وہ اپنی مردانہ گفتگو شروع کر سکیں اور میرے طنز و مزاح سے بچ سکیں، یہ سچ ہے کہ اگر بندہ اپنے بچگانہ کرتوت نہ بدلے اور اپنی عمر کے مطابق معتبر بننے کا بھی شوق نہ ہو، تو اسے بیٹھکیں سجانے کی بجائے کچھ لکھتے رہنا چاہیے، کیا ضرورت ہے آجکل ارسطو بننے کی؟ اپنے حوالے سے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ سارے بچے معصوم نہیں ہوتے، بہت سارے پیدا ہی کھوچل ہوتے ہیں،معتبر لوگ اچھے نہیں لگتے کیونکہ وہ جھوٹ بہت بولتے ہیں۔ میری عمر کی نصف صدی ابتک مجھ سے دور ہے،صحافتی، سماجی اور گھریلو ذمہ داریاں سر پر نہ پڑتیں تو میں اب تک اسکول میں ہی ہوتا اور ہفتے میں دو دن اسکول سے بھاگا کرتا،اچھرے والی نہر پر ٹیوب کرائے پر لے کر سوئمنگ کرتا،ہر جگہ پیدل جاتا پیدل آتا، بغیر اجازت دوستوں کے گھروں میں داخل ہوتا،ان کی ماؤں سے کھانا کھاتا اور شکریہ بھی ادا نہ کیا کرتا۔ روز روز عشق کرتا، بسوں میں بغیر ٹکٹ سفر کرتا، استادوں کی مار سے بچنے کیلئے انہیں فلموں کے فری پاس رشوت میں دیتا رہتا، اور والد کی خوشخطی سے فائدہ اٹھاتا، ان سے اچھے اچھے چارٹ بنوا کر کلاس روم میں لگاتا، یہ چارٹ والی بات مجھے یوں یاد آئی کہ ایک صاحب نے پچھلے ہفتے کال کرکے بتایا کہ وہ میرے کلاس فیلو تھے ،میں نام سے انہیں نہ پہچان سکا تو انہوں نے پوچھا، آپ وہی ہیں ناں جو بہت خوشخط ہوا کرتے تھے اور کلاس روم کیلئے خوبصورت چارٹ بنا کر لایا کرتے تھے؟ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور نشانی بیان کرتے میں نے جلدی سے کہا،،جی ہاں میں وہی ہوں۔۔۔ جب سولہ برس کا تھا، بچوں کی کہانیاں لکھنی شروع کیں، ہمارے ایک ایڈیٹر کا نام حمید اختر تھا،وہ اس اخبار کے تین ایڈیٹروں اور تین ہی مالکوں میں سے ایک تھے، تنخواہ ملازمین کو نہیں ملتی تھی انہیں کہاں سے ملتی؟ وہ خود ایک معروف ادیب تھے اور اردو ادب کے بڑے بڑے لوگ ان کے دوست تھے، حمید اختر صاحب کے زیادہ تر دوستوں نے پارٹیشن کے بعد ہندوستان میں ہی سکونت اختیار کر لی تھا، ان میں عصمت چغتائی، احمد عباس، کرشن چندر،ساحر لدھیانوی، نرگس، نرگس کا باپ، مدھو بالا، مدھو بالا کا باپ،سائرہ بانو‘سائرہ بانو کی ماں اور کتنے ہی نام شامل ہیں‘ان کایارانہ سجاد ظہیر،فیض احمد فیض،سبط حسن،اور جوش ملیح آبادی جیسی شخصیات سے بھی رہا۔حمید اختر صاحب نے گھر کا خرچہ چلاتے، بچوں کے اسکولوں کی فیسیں اور مکان کا کرایہ دینے کیلئے ایک سیمنٹ ایجنسی کا پرمٹ لے رکھا تھا، اور ایجنسی کا آفس ریگل سینما کے اندر اس جگہ پر تھا جہاں فلموں کے پوسٹر آویزاں کئے جاتے تھے، سینما دوست کا تھا اور دوست اس زمانے میں کرایہ نہیں مانگا کرتے تھے، ناز سینما کے مالک غلام مرتضیٰ بھی ان کے یار غار تھے اور حمید اختر صاحب کے فلمیں بنانے کے شوق کی تکمیل کیا کرتے تھے، انہوں نے حمید اختر صاحب کی جو آخری فلم پروڈیوس کی اس کا نام تھا،،پرائی آگ،،، اس فلم کے ہیرو، ہیروئن شمیم آراء اور ندیم تھے ، ڈائریکٹر غالباً فرید احمد تھے، یہ فلم ناز سینما میں لگی تو میں نے دوستوں اور ان کے بڑوں میں کہنا شروع کردیا کہ اس فلم کے پروڈیوسر میرے ایڈیٹر ہیں، ایک دن ہمارے ایک قریبی عزیز کی بہنوں نے مجھے گھر پر بلوا کر فرمائش کی کہ وہ تمام چھ بہنیں فلم دیکھنا چاہتی ہیں اور تم اپنے ایڈیٹر سے فلم کے پاس لادو، میں نے دو چار دن تو ٹالا مگر وہ لڑکیاں جان چھوڑنے والی نہیں تھیں‘ میں نے مدعا بیان کر دیا، انہوں نے جواب دیا، کوشش کروں گا۔اسی طرح کئی دن گزر گئے، میں ان کے روم میں جاتا تو وہ ٹال دیتے، شرمندگی سے بچنے کیلئے میں نے فرمائش کرنے والی لڑکیوں سے رابطہ منقطع کر لیا، ایک دو دن بعد حمید اختر صاحب نے مجھے سمجھایا کہ ان کا اس فلم سے تعلق اس کے مکمل ہونے تک ہی تھا، جب فلم بن جاتی ہے تو اس کے حقوق ڈسٹری بیوٹرز کے پاس چلے جاتے ہیں ، اور فلمساز کا فلم سے کوئی تعلق نہیں رہتا، یہ سیدھی سادی نو تھی ، انکار تھا، میں نے حمید اختر صاحب سے کہا ۔۔۔سر میں تو ایک فیملی سے اس فلم کے پاسز دینے کا وعدہ کر چکا ہوں، اب انہیں انکار کیا تو بہت شرمندگی ہوگی،، ٹکٹوں کا انتظام تو آپ ہی کو کرنا ہوگا، وہ خاموش رہے اور اس کے دو دن بعد انہوں نے مجھے بلوایا اور ناز سینما کے چھ ٹکٹ جو گیلری کے تھے‘ مجھے تھما دیے ٹکٹ تو میں نے لے لئے اور ان لڑکیوں تک پہنچا بھی دیے، لیکن اس سوچ نے مجھے بہت مضطرب کیا۔۔۔۔۔۔ جب میں اسکول میں پڑھتا تھا اوراساتذہ کی مار سے بچنے کیلے ابا جی سے فلموں کے پاس یا ٹکٹ منگوایا کرتا تھا، کیا وہ بھی یہ ٹکٹ اپنے پیسوں سے لایا کرتے تھے؟۔ بات ہو رہی تھی حمید اخترصاحب کی تو بتاتا چلوں، مجھے ایک کال پچھلے اتوار کو نئیر عباسی صاحبہ کی بھی آئی، میں ان کی آواز چالیس پنتالیس سال بعد سن رہا تھا، وہ بھی حمید اختر صاحب کے اخبار میں میری سینئیر کولیگ تھیں، ایک انتہائی نفیس، ہمدرد اور پیار کرنے والی خاتون،نئیر عباسی صاحبہ جلد ہی ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر بن کر چلی گئیں ، اب وہ نئیر محمود کہلاتی ہیں ،نئیر محمود ریڈیو پاکستان کی سربراہ کے طور پر ریٹائرڈ ہوئی تھیں۔ اب اسی اخبار سے جڑا ہوا ایک واقعہ جو داستان حسرت بھی ہے۔ میں روزانہ بچوں کی ایک دو کہانیاں لکھا کرتا تھا۔ یہ کام ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں نمٹا دیتا اور باقی وقت گپ بازی اور بے تکے کاموں میں لگا رہتا، ایک دن سید عباس اطہر صاحب نے حکم لگایا کہ تم شام کو کچھ وقت سٹی پیج پر بھی دیا کرو، سٹی پیج کے انچارج کا نام سعید صاحب تھا، میں ان کا چھوٹا بن گیا، میں پریس ریلیزز اور رپورٹرز کی خبروں کی نوک پلک درست کرکے انہیں شعبہ کتابت میں بھجواتا، ایک دن دو طالبات کی تصویریں اشاعت کیلئے آگئیں، جنہوں نے اپنے اسکول میں مبینہ طور پر ٹاپ کیا تھا، سعید صاحب نے پازیٹو بن جانے کے بعد انہیں میری ٹیبل پر دیکھا تو اپنے قبضے میں لے لیا، دونوں تصویروں کو کئی منٹ تک غور سے دیکھا ، پھر ایک تصویر مجھے واپس کرتے ہوئے دوسری اپنی جیب میں ڈال لی، میں نے ان کی یہ منصفانہ تقسیم تسلیم کرلی اور دوسری واپس لوٹائی گئی تصویر اپنی جیب میں رکھ لی، سعید صاحب کو کچھ دنوں بعد کسی بنک میں نوکری مل گئی وہ وہاں سے رخصت ہوگئے، ان سے ابتک پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی ، میرے حصے میں آنے والی تصویر پندرہ سال تک میرے بٹوے میں رہی، وہ تصویر طویل کہانی بنتی چلی گئی، کئی سال تک تو یہ کہانی یکطرفہ چلی اور کئی سال بعد جب جواب ملا تو انکار میں ملا ،ہم نے اس انکارکے باوجود اپنی ہٹ دھرمی کا اس وقت تک پہرہ دیا جب تک کہ اس دیوی کی شادی نہ ہو گئی ، آجکل ہمارے چیف جسٹس صاحب اپنی ریٹائر منٹ کے بعد بھی ڈیموں کی تعمیر پر پہرہ دینے کے عزم کااظہار فرما رہے ہیں، یہ بھی محبت ہی ہے، ہمارے زمانے میں تو فنڈز ہوتے نہیں تھے، ورنہ تمام محبتوں کو انجام تک پہنچاتے۔