قبلہ فضیحتہ الشیخ (درست حجے فضی حاتش یخ) خاصے دن غائب رہے۔ پتہ چلا کہ کورونا سے ہم آغوش ہو گئے تھے۔ گزشتہ روز تخلیہ کی مدت ختم ہوئی تو دھماکے کے ساتھ جلوت میں آئے اور جامہ خاموشی چاک کرتے ہوئے یہ انکشاف فرمایا کہ ہوا تو مائنس تھری ہو گا۔ محض مائنس ون نہیں۔ قبلہ کے فرمائے پر شک کی گنجائش نہیں۔ البتہ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ تیسرا کون۔ پہلے کا تو سبھی کو پتہ ہے‘ دوسرے ظاہر ہے قبلہ فضیحتہ الشیخ خود ہوں گے۔تیسرا کون؟مزید فرمایا کہ پٹرول کی قیمت میں جو بے محابا اضافہ کیا گیا‘ وہ خاں کے خلاف سازش تھی۔ بجا‘ لیکن سازش کس نے کی؟اگر نرخ اوگرا نے بڑھائے ہوتے تو اوگرا کو سازش کہا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو وزارت پٹرولیم کے نرخ نامے پر خود خاں صاحب نے دستخط کئے۔ قبلہ‘ سازشی کا نام کھل کر بتا دیتے۔بہرحال ایسی سازش پہلے بھی بار بار ہوئی۔ دوائوں کے نرخ بڑھائے گئے‘سازشیوں نے اربوں کمائے اور پچاس ارب سے زیادہ روپے تو آٹا مہنگا کر کے کمائے گئے اور اب ایک تازہ خبر ایک چینل کی یہ ہے کہ گزشتہ دو برس میں محض پاور سیکٹر میں تین ہزار ارب کی کرپشن ہوئی۔ ظاہر ہے یہ بھی سازش تھی اور کمال ملاحظہ کیجئے کہ ہر سازش کے کاغذ پر دستخط ایک ہی صاحب کے ہوتے ہیں۔ ہے نا کمال کی بات۔ ٭٭٭٭٭ جناب شیخ کے پاس محکمہ ریلوے کے انڈر ٹیکرکی اضافی ذمہ داری بھی ہے اور اب تو لگتا ہے‘ وہ اس ذمہ داری کی تکمیل کامل کے مرحلے میں ہیں۔ تقریباً فی یوم ایک حادثہ‘خسارہ حساب کی حدوں سے گزر گیا۔ یہ وہ خواب تھا جو قبلہ کے قبلہ اول ضیاء الحق نے دیکھا‘قبلہ دوئم مشرف نے آگے بڑھایا اور اب قبلہ کے قبلہ سوئم کے دور میں پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اس خواب کے ذکر سے یاد آیا‘ گزشتہ روز 5جولائی کا تاریخی دن کسی دھوم دھام سے بنا ہی منایا گیا‘حالانکہ اور نہیں تو کم از کم نالہ لئی کے علاقے میں تو ہولی دیوالی کا سماں ہونا ہی چاہیے تھا۔یہ وہ دن ہے جب مرد حق مرد مومن نے بھٹو اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والا معاہدہ غتر بود کیا اور ملک کو فتح کرنیکا شاندار کارنامہ سرانجام دیا۔ موصوف بہت راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ زندگی میں ایک بھی نماز قضا نہیں کی اور عمر بھر ایک بھی سچ نہیں بولا۔ خدا نے ان کے 90دن میں برکت دی اور وہ گیارہ سال پر محیط ہو گئے۔ مرحوم کی پہلی اور آخری وفاداری امریکہ سے تھی چنانچہ گیارہ برس بعد امریکی سفیر رابن رافیل کے ہمراہ جام شہادت نوش فرمایا۔! ٭٭٭٭٭ رویت یہ رہی ہے کہ وزیر اعظم جس شے کا نوٹس لیتے ہیں‘ وہ پہلے سے بھی زیادہ مہنگی ہو جاتی ہے۔ تازہ مثال اس کی آٹا ہے۔ جس کی قیمت میں پچھلے ایک سال کے دوران 65فیصد اضافہ پہلے ہی ہو چکا ہے اور اب لگ بھگ یہ نواز دور کے مقابلے میں دوگنا مہنگا ہو چکا ہے۔ روٹی نان کے تازہ بھائو سن کر بھائو بتانے کو من کر اٹھتا ہے لیکن کیا کیجیے‘ اس دور ناتوانی میں عوام نرت کاری دم کہاں سے لائیں۔ ٭٭٭٭٭ نوٹس لینے کا مطلب کیا ہے‘ یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے‘ بعض رمز شناسوں کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ایک کوڈ ورڈ ہے یعنی جسے آپ گرین سگنل بھی کہہ سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی شے کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لینے کی خبر آئے تو ’’متعلقہ‘‘ حلقے سمجھ جاتے ہیں کہ نرخ بالا کن کا گرین سگنل ہے کہ صاحب کا خیال ارزانی ہنوز کا ہے۔ واللہ اعلم لیکن ہو تو بہرحال یہی رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ہفتہ رواں کی وہ خبر جس نے بہت توجہ کھینچی‘یہ تھی کہ نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو مس کنڈکٹ کی بنیاد پر برطرف کر دیا گیا ہے۔ اس برطرفی سے بظاہر کچھ خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا لیکن حکمران جماعت کو جس طرح پتہ نہیں کتنے ہزار واٹ کا جھٹکا لگا‘ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نظر آنے کو ہے۔ مس کنڈکٹ سے کیا مراد ہے‘ اس کا پتہ تو تفصیلی فیصلے سے ہی چلے گا لیکن کہانی کا خلاصہ بس اتنا ہے کہ جج کی ایک ویڈیو لیک ہوئی جس میں وہ یہ بتا رہا ہے کہ اسے اس کی ایک غیر اخلاقی ویڈیو دکھا کر حکم دیا گیا کہ دونوں مقدمات میں نواز شریف کو سات سات سال قید کی سزا دو۔ چونکہ مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ثبوت کہاں ہے‘ اس لئے میں نے ایک میں سزا سنا دی۔ انہی دنوں سپریم کورٹ نے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس اعجاز چودھری کا وائس آف امریکہ کو انٹرویو بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہل کرنے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔ بہت پہلے یعنی پانامہ کیس سے بھی پہلے۔ مطلب یہ برآمد ہوا کہ پانامہ سکینڈل ‘انجینئرنگ کا شاہکار تھا۔ یہ بات سب سے پہلے جاوید ہاشمی نے 2014ء کے دھرنے کے موقع پر بتائی۔ انہیں اس راز سے عمران خان نے آگاہ کیا۔ عمران خان کو یہ راز کس نے بتایا؟ثابت ہوا کہ تقدیر کے فیصلے پہلے سے لکھے لکھائے ہوتے ہیں‘ وقت آنے پر انہیں ’’نافذ‘‘ کر دیا جاتا ہے پانامہ نہ سہی‘ اقامہ ہی سہی۔ ٭٭٭٭٭ ملک میں ہر طرف ایمانداری کا دور دورہ ہے۔ ایسا دور دورہ کہ جس نے نادر شاہ قاچار کے دور کے ریکارڈ بھی توڑ دیے ہیں۔ جسے دیکھو اربوں در اربوں کی ایمانداری کے ڈنکے بجا رہا ہے۔ بہرحال کچھ اب بھی بہت پیچھے ہیں۔ مثلاً ڈی جی خاں ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداروں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ انہیں حکومت کی طرف سے تیس لاکھ کا چیک دیا گیا تو ایک وفاقی وزیر اور ان کے خاوند نے دس لاکھ کا مطالبہ زر کر دیا۔ انکار پر چیک ڈس آنر کرنے کا حکم جاری ہو گیا۔ اربوں کے دور میں محض دس لاکھ کی ایمانداری؟سچ ہے‘ جنوبی پنجاب میں احساس محرومی کا وفور کچھ زیادہ ہی ہے۔