لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کے جلوس پر جو پتھرپھینکے گئے ان پتھروں نے پیپلز پارٹی کے سارے امیدواروں کو جذباتی طور پر زخمی کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو سو فیصد یقین تھا کہ سندھ پر دس برس بری حکومت کرنے کے باوجود جب وہ بلاول بھٹو کو میدان میں اتارے گی تو اس نوجوان کے فریم میں بینظیر بھٹو کی تصویر دیکھ کر عام طور پر پاکستان اور خاص طور پر سندھ کے لوگ سب کچھ بھول جائیں گے۔ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں وہی سیاسی دیوانگی کے مناظر دکھائی دینگے۔ جس طرح اقتدار میں آنے سے پہلے لوگ بینظیر بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کئی گھنٹوں تک دھوپ میں کھڑے رہتے تھے؛ اس بار بھی ایسا ہوگا۔ لوگ ایک خوبصورت اور قدآور نوجوان کے ساتھ سیاسی عشق کی نئے سرے سے شروعات کرینگے۔ مگر پیپلز پارٹی کی ساری امیدیں اس وقت خاک میں مل گئیں جب بلاول بھٹو زرداری پر اس لیاری میں پتھر پھینکے گئے جس لیاری کو کل تک پیپلز پارٹی اپنا قلعہ قرار دیتی تھی۔ جس دن اس قلعے کے مورچوں سے بلاول بھٹو زرداری کے قافلے پر گندے پانی سے بھرے ہوئے مٹکوں کا حملہ ہوا اس دن پیپلز پارٹی کو محسوس ہوا کہ اس کے کراچی والے قلعے پر اب ان کا کنٹرول نہیں رہا۔ وہ قلعہ اب پیپلز پارٹی کو تحفظ دینے کے بجائے اس پر مخالفت کے تیر برسانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ لیاری جیسا مضبوط قلعہ چھن جانے کا افسوس اپنی جگہ مگر پیپلز پارٹی کی قیادت اب اس بات پر آنسو بہا رہی ہے کہ وہ ایسا چہرہ کہاں سے لائیں گے جس کی معرفت وہ ملک کے عوام کو منائیں گے۔ اگر پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ پنجاب کے لوگ بھی اس پارٹی سے ناراض ہیں تو یہ اس کی بھول ہے۔ اہلیان پنجاب نے تو سب سے پہلے پیپلز پارٹی سے اپنا رشتہ ختم کردیا۔ پنجاب کا اب پیپلز پارٹی سے کوئی رشتہ نہیں۔ اس لیے ناراض ہونے یا منتوں سے منانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی سے نہ صرف ناراض ہیں بلکہ بہت زیادہ ناراض ہیں۔ ان کی ناراضگی کے اظہار سندھ میں جا بجا ہو رہے ہیں۔ اس وقت سندھ میں امیدوار خوف کی وجہ سے انتخابی مہم چلانے کے لیے تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار جہاں بھی جاتے تھے وہاں سندھ کے نوجوان موبائل فون لیکر کھڑے ہوجاتے تھے اور ان سے پوچھنا شروع کرتے تھے کہ آپ نے دس برس حکومت کی مگر ہمارے مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ آج بھی ہمارے علاقے کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ آج بھی ہمارے بچوں کے اسکولوں پر وڈیروں کے قبضے ہیں۔ آج بھی ہمارے علاقے میں بدامنی ہے۔ آپ کی حکومت کس منہ سے ووٹ مانگ رہی ہے؟ آپ کی حکومت نے تو سرکاری ملازمتیں بھی پیسوں میں بیچیں۔ آپ کے کچھ جیالے تو ایسے بھی نکلے جنہوں نے ملازمتوں کے پیسے تو لے لیے مگر ملازمتیں نہیں دیں۔ آپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ آپ کو ہم سے ووٹ مانگنے کا کوئی حق نہیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف عوام کی پرامن بغاوت کا یہ حشر تھا کہ اس بار عوام نے صرف نثار کھوڑو ٹائپ شہری اور مڈل کلاس سے ابھرنے والے امیدواروں کو آڑے ہاتھوں نہیں لیا بلکہ اس بار عوام نے بڑے وڈیروں؛ پیروں اور میروں کا گھیراؤ کیا اور ان کا جمہوری احتساب کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ پیپلز پارٹی کے وہ سابق وزراء جو اپنے علاقے میں کبھی دانشور بن جاتے تھے اور ملازمتیں مانگنے والے نوجوانوں کو چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’صرف سرکاری ملازمت کے انتظار میں عمر مت گنواؤ ۔ آپ لوگوں کو اگر چنے بیچنے بھی پڑیں تو بیچیں‘‘ ایسی بات سکھر میں خورشید شاہ نے بھی کہی تھی۔ اس بار سکھر میں ایک اردو بولنے والے نوجوان نے خورشید شاہ کے سامنے اس وقت چنے پھینکے جب وہ ووٹ مانگنے کے لیے ان کے محلے میں آئے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کے امیدوار عوامی احتساب سے ڈر کر اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے راضی نہیں ہو رہے تھے اور دوسری طرف بلاول ہاؤس سے بار بار ان کو ٹیلی فون آتے کہ ماحول کو گرمانے کے لیے آپ کچھ بھی نہیں کر رہے؟ آپ کو میدان میں نکلنا چاہئیے اور عوام سے رابطے بڑھانے کا عمل شروع کرنا چاہئے۔ وہ سب اس بات سے خوفزدہ تھے کہ اگر وہ باہر نکلے تو عوام ان کو خوار کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ سندھ کے سابق ثقافتی وزیر کے خلاف اس کے علاقے میں جلوس نکلا جس میں لوگوں نے نعرے لگائے اور کہا کہ آپ پانچ برسوں کے دوران ایک بار بھی ہمارے پاس نہیں آئے اب ووٹ مانگنے کے لیے آگئے ہو۔ اس سابق وزیر کا وہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے جس میں ایک نوجوان اس سے کہتا ہے کہ ’’آپ بیوقوفانہ باتیں نہ کریں‘‘ اور وہ ویڈیوبھی وائرل ہوچکی ہے جس میں پیپلز پارٹی کے ایک امیدوار کی گاڑی کے سامنے ایک چھوٹا سا بچہ آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور اس کا والد امیدوار سے کہتا ہے کہ میرے اس کمسن بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ سندھ کے سوشل میڈیا پر وہ ویڈیو تو بہت زیادہ شیئر ہوئی ہے جس میں سابق وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ ایک مقامی صحافی کا موبائل فون اس وقت چھین لیتے ہیں، جب وہ شکایت کرنے والے ایک ووٹر کی ریکارڈنگ کر رہا تھا۔ یہ حالات ایسے نہ تھے جن حالات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار بے خوف ہوکر لوگوں میں جائیں اور پارٹی کے نام پر ووٹ مانگیں۔ مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کا ان پر مستقل دباؤ تھا کہ وہ گھروں سے باہر نکلیں مگر جس دن لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کے جلوس پر پتھر پھینکے گئے اس دن سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا ہے اور وہ اب بڑے آوازے سے کہتے تھے کہ جب عوامی کے غضب سے بلاول بھٹو زرداری محفوظ نہیں ہے تو پھر ہماری اوقات کیا ہے؟ پیپلز پارٹی پہلے اپنے امیدواروں کی طرف پیش کیے جانے والے اعتراضات سختی کے ساتھ مسترد کرتی تھی مگر جب سے بلاول بھٹو زرداری پر پتھر پڑے ہیں تب سے انہیں سارے ڈرنے والے امیدواروں کا احساس ہونے لگاہے۔ مگر سیاست تو مفاد کا کھیل ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار قیادت کے سامنے تو لیاری کی مثال بطور دلیل پیش کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ لیاری میں ہوا اس کے بعد ان امیدواروں کے دل بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ وہ بہت مایوس ہیں ۔ انہیں پیپلز پارٹی میں اپنا مستقبل کسی رخ سے روشن نظر نہیں آتا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی بلاول کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔ جس وقت لیاری والا واقعہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی معرفت پورے ملک میں پھیل گیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ ان کی نوجوان لیڈرشپ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا رہی ہے۔ اس وقت انہوں نے میڈیا میں موجود اپنے حمایتی حلقوں سے مدد کی اپیل کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے چند نامور اینکرز نے واقعہ کا اثر کم کرنے کے یہ دلائل بھی دیے کہ اس سے پہلے بھی لیاری میں پیپلز پارٹی کے خلاف احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ ان اینکرز نے اس نکتہ پر اصرار کیا کہ پیپلز پارٹی نے لیاری میں منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کیا تھا اس لیے لیاری کے لوگ پیپلز پارٹی کے خلاف غصے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ایسے دلائل پیش کرتے ہوئے پاکستان کے وہ سینئر جرنلسٹ یہ بات کیوں فراموش کرگئے کہ پیپلز پارٹی کو بچانے کے لیے انہوں نے لیاری کے غریب اور مظلوم لوگ پر تنقید کے تیر برسائے ہیں۔ ایک تو لیاری میں منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کرنے والی قوت پیپلز پارٹی نہیں تھی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ لیاری کو منشیات فروشوں اور گینگ وار کے کارندوں سے جو بھی بچائے گا ؛ لیاری کے لوگ اس کے خلاف کیوں ہوجائیں گے؟ لیاری کے لوگ سماجی حساب سے بھلے پس ماندہ ہوں مگر وہ سیاسی حوالے سے بہت ذہین ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لیاری کے گلے میں منشیات فروش ڈالنے والے ہاتھ کس کے تھے؟ کس نے رحمان ڈکیت کو تحفظ فراہم کیا تھا اور کس نے عزیر بلوچ کو لیاری کا لاڈلا بنایا تھا۔ لوگ سب جانتے ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی کی قیادت اس کوشش میں مصروف ہے کہ لیاری کے واقعے کو ایک سازش ثابت کیا جائے۔ پاکستان اور سندھ کے کچھ صحافی حضرات نہ صرف اپنے میڈیا بلکہ سوشل میڈیا کی معرفت بھی اس واقعے کو ایک سازشی افسانے کی طرح بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر آنے والے کڑے وقت میں اس کا ساتھ دیتے ہوئے وہ حضرات کہتے ہیں کہ لیاری کی کچی آبادی میں مخصوص افراد نے سازش کی تیلی سے احتجاج کی آگ جلانے کی کوشش کی۔ اگرا ن کی اس سازشی تھیوری کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ چند افراد نے سازش کی تیلی جلائی پھر بھی ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ تیلی بھی وہیں آگ لگاتی ہے جہاں جنگل سوکھا ہو۔ پیپلز پارٹی نے اپنی مخصوص سیاست کی وجہ سے عوامی جذبات کا جنگل سوکھا کر دیا۔ اس لیے اگر لیاری واقعہ سازش بھی تھا تب بھی اس سازش کو کامیاب کروانے میں پیپلز پارٹی کے کردار کو مسترد کرنا ممکن نہیں ہے۔