چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی جس انداز میں سینٹ میں آئے اسی انداز سے وہ برقرار رہنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ بہت مبارک ہو۔ انکے خلاف اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان سے بدلہ لینے کے لئے ایک سازش کی اور اس سازش کو ناکام بنانا حکومت اور سنجرانی صاحب کا حق تھا ، یہ حق بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اس قسم کے معرکے کے بعد ہارنے والی جماعتوں کو یہ جمہوریت پر شب خون اور فسطایئت کا مظاہرہ دکھائی دیتا ہے جبکہ کچھ ماہ پہلے وہ خود یہی کچھ کر چکے ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں جمہوریت کی وکھری ٹائپ کی اعلیٰ اقدار جو ایسے موقعوں پر ہمیشہ قائم رہتی ہیں ہمارے پارلیمنٹرینز نے کبھی انکوبدلا اور نہ ہی بدلنے کی کوشش کرنے والوں کو ہی کامیاب ہونے دیا۔جیساکہ سابقہ سینٹ الیکشن کے تجربے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے تجویز دی تھی کہ سینٹ میں خفیہ ووٹنگ کی بجائے کھلی گنتی ہونی چاہیئے۔ لیکن اس وقت اپوزیشن جما عتوں کو گھوڑے درکار تھے انہوں نے ایک نہ چلنے دی۔ بالکل ایسے ہی جب پیپلز پارٹی نے احتساب کے قانون میں ترمیم کے لئے مسلم لیگ (ن) سے درخواست کی تو انہوں نے ایک نہ سنی۔ جب خود پھنس گئے تو اب نیب کے قانون کے لتے لیتے نہیں تھکتے۔ یہ اس جمہوری نظام کا ثمر ہے جو ہم نے بڑی تندہی سے بنایا ہے، جھرلو سے شروع ہونے والا یہ نظام چھانگا مانگا سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ہر نئے دن کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں نے ہارس ٹریدنگ کی روایت کو مضبوط ہی کیا ہے کبھی اس کو ختم کرنے یا روکنے کی کوشش نہیں کی۔عام انتخابات میں ہمیشہ ایسا ماحول ضرور بنتا ہے جس کے بعد ملک میں مضبوط جمہوری اداروں کے بننے کی امید پیدا ہوتی ہے۔ لیکن انکے تشکیل پاتے جیسے ہی حکومت اور اپوزیشن اپنے مورچے سنبھال لیتی ہیں ایسی گولہ باری شروع ہوتی ہے کہ ساری امیدیں دم توڑ جاتی ہیں اور عوام بھی اگلے انتخاب تک صبر سے اس دھما چوکڑی کو دیکھتے ہیں، نئے انتخابات میں اپنی پسند میںحسب توفیق تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں جس میں کبھی عوام تو کبھی انکے خیر خواہ کامیاب ہو جاتے ہیںلیکن اداروں کی مضبوطی کا خواب پوار نہیں ہو پاتا۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔تو رونا کیسا! جو جمہوریت کی خدمت تمام سیاسی جماعتوں نے اب تک کی ہے اور جو اقدار استوار کی ہیں اس میں گھوڑے بھی ہونگے خریدار بھی آئینگے، گھوڑوں کی خریدو فروخت بھی ہو گی۔ لیکن ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ جو شخص علی الاعلان اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دے یا دوسری جماعت کو سپورٹ کرے، اسے لوٹے جیسے لفظ سے نوازا جاتا ہے، جو شخص پارٹی کو دھوکہ دے اور خفیہ ساز باز کے ذریعے اپنے ضمیر کا سودا رقم یا کسی عنایت کے عوض کرے اسے گھوڑاقرار دینا وہ بھی بکا ہوا کہاں کا انصاف ہے، حالانکہ کام تو وہ’’خچروں‘‘ والا کر رہا ہے لیکن ایک بہت خوبصورت ، طاقت ، سبک خرامی اور مزاحمت کا نشان گھوڑا کیوں بدنام ہو رہا ہے۔ بحر حال یہ تو وہ 14 پارلیمنٹیرین ہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ پاکستان کی دو بہت بڑی جمہوری قوتیں جو ہارس ٹریڈنگ کی روایت کی امین ہیں، نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان بے ضمیر ارکان کو بے نقاب کر کے رہیں گی۔اس سلسلے میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے بلند بانگ دعوے بھی کئے ہیں اور شہباز شریف نے تو گزشتہ جمعتہ المبارک کوایک میٹنگ بھی کر ڈالی ہے جس میںگمان ہے کہ وہ سب سینیٹرز موجود تھے جن پر ہمدردیاں بدلنے کا شک کیا جا رہا ہے۔یہ ایک نیک کاوش ہے کیونکہ جمہوریت کو فروغ دینا حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے۔اس تلاش میں ایک گڑ بڑ کا اندیشہ ہے، کہیں انکو ڈھوندتے ڈھونڈتے، کھرا بلاول کی پھپھو اور مریم کے چچا کے گھر نہ پہنچ جائے۔پتہ چلے کہ اس بار کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی بلکہ عظیم تر مفاہمت کے نتیجے میں سینٹ کے چیئرمین کی کرسی بچ گئی ۔ جتنے میں ایک سال پہلے خریدے اتنی ہی قیمت میں بیچ دئیے۔ منافع کا خیال بھی دل میں نہیں لائے۔ ایک بات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن چیئرمین سینٹ کو ہٹانے میں کس قدر سنجیدہ تھی۔کیا یہ کوئی سازش تو نہیں تھی اور کس نے کی؟جو باتیں مجھے شک میں مبتلا کر رہی ہیں اس میں مہنگائی سمیت اتنے سارے ایشو تھے، لیکن تحریک عدم اعتماد کافیصلہ ہی کیوں کیا گیا وہ بھی ایسے شخص کے خلاف جس کو اپوزیشن کی سب سے متحرک جماعت پیپلز پارٹی لے کر آئی تھی۔ جسکے خلاف کوئی چارج شیٹ بھی نہیں تھی۔ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا معقول فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔ پھر انکی جگہ میر حاصل بزنجو جیسے متنازعہ امیدوار کی نامزدگی، وہ بھی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے۔شایدسینیٹرز کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ صادق سنجرانی کو ہٹائو گے تو یہ آپکا اگلا چیئرمین ہوگا یا شاید کوئی قانونی تقاضا ہو۔ لیکن جس طرح سے حاصل بزنجو کی نامزدگی کی گئی اسکے بارے میں رپورٹ ہو چکا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے ایک اجلاس کے دوران مختلف ناموں پرغور ہو رہا تھا کہ اچانک شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ایک منٹ ٹھہریں ابھی نام آ رہا ہے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ جیل سے میاںنواز شریف نے انہیں فون پر تحریری پیغام کے ذریعے بتایا ہے کہ حاصل بزنجو چیئرمین سینٹ کے لئے اپوزیشن کے امیدوار ہوں گے۔ یہ ہضم نہ ہونے والی بات ہے کہ جیل کے اندر میاں نواز شریف کوموبائل فون کی سہولت حاصل ہو اور وہ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہوں۔اپوزیشن اگر واقعی اس تحریک میں سنجیدہ ہوتی تو وہ امیدوار کے انتخاب میں ضرور وقت لیتی اور اکثریت کے لیے قابل قبول امیدوار کو نامزد کرتی۔ آخری بات یہ کہ اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے حکومت اور اتحادی جماعتوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی سینٹ میں اقلیت میں تھے اور انکی کوئی نہیں چلتی تھی ،لیکن اس تحریک کی ناکامی سے اپوزیشن کا شیرازہ بکھرنے کے پورے امکانات پیدا ہو گئے ہیں ۔میر حاصل بزنجو اس پہلو پرغور کریں تو شاید انکو اس سازش کے پیچھے اصل کرداروں کا پتہ چل جائے۔