سیاسی سرکس جاری ہے۔ اس میں ذرا دیر کا وقفہ اس وقت آیاجب ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے قریب تیز گام کو آگ بڑھکنے کا المناک حادثہ پیش آیا۔سبز اور پیلی بوگیوں کو آگ کے زرد شعلوں کی لپیٹ میں دیکھنا۔ ایک ناقابل بیان خوفناک منظر تھا۔ مسافروں کا زندہ جل جانا ایسا دل سوز سانحہ تھا کہ کم از کم پورا ایک دن ہمارے مین سٹریم میڈیااور سوشل میڈیا کی توجہ اسی سانحے پر مبذول رہی۔ اس روز میڈیا میں سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف کی بیماری اور خون میں کم پلیٹ لیٹس پر تشویش کی خبروں میں کمی رہی، ساتھ یہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور ممکنہ دھرنے کے مضر اثرات اور نتائج پر بھی میڈیا کے تبصرے‘ قیاس آرائیاں اور تجزیوں کے سپیشل پیکیج ذرا کم کم ہی ٹی وی سکرینوں پر دکھائی دیے۔جیتے جاگتے مسافروں کا دوران سفر ناگہانی آگ میں جل کر اذیت ناک موت مرجانا اور اسی سے دوگنی تعداد کا جھلسنا اتنا بڑا المیہ تو تھا ہی کہ اس پر خبریں تجزیے پیکیج اور فالو اپ خبریں نشر کی جاتیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی ہمارے سوشل میڈیائی بقراطوں نے فوراً اپنے تبصروں ‘ ویڈیوز ‘ لطیفوں ‘ کمنٹوں اور پوسٹوں کا رخ ٹرین حادثے کی طرف موڑ دیا۔ اس ایک ڈیڑھ دن کے وقفے میں کیا ہوا آئیے ذرا اس کی خبر لیتے ہیں۔ جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے وطن عزیز میں کوئی حادثہ کوئی بڑا سانحہ ہو جائے تو جانتے ہیں سب سے پہلے کیا ہوتا ہے۔جی ۔مذمت ہوتی ہے انسانی جانوں کے نقصان پر رنج و غم کا اظہار کیا جاتا ہے غم کی گھڑی میں لواحقین کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا جاتاہے۔ زخمیوں کی ہر ممکن طبی امداد کا اعلان حکومت پہلی فرصت میں کرتی ہے۔یہ سب مذمتیں اور رنج و غم کا اظہار تو ایسے بڑے حادثوں پر اہل اقتدار کا وتیرہ ہے اور وہی کرتے ہیں۔ لیکن جب سے کپتان کی حکومت آئی ہے ایسے حادثات کے فوراً بعد ایک اور کام بھی تواتر سے ہونے لگتاہے اور وہ یہ کہ عوام کپتان کی انقلابی شعلہ بیانی کے پرانے ویڈیوں کلپس ایک آئینے کی طرح تبدیلی سرکار کے سامنے رکھ دیتے ہیں کہ دیکھیے۔ آپ بھی انقلاب‘ تبدیلی اور برابری کی کیسی کیسی بڑھکیں مارا کرتے تھے اب اس آئینے میں اپنی تصویر دیکھیے۔ انقلابی شعلہ بیانی کے ان پرانے ویڈیو کلپس میں کپتان اپنے آپ کو یاد دہانی کرواتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو میرے پاکستانیو! فلاں ملک میں ٹرین کا حادثہ ہوا تو وزیر کو مستعفی ہونا پڑا۔ اگر وزیر مستعفی نہیں ہو گا تو حادثے کی انکوائری کیسے غیر جانبدار ہو گی۔؟ کہیں بے گناہ قتل ہو تو وزیر اعظم اس کا ذمہ دار ہے۔ فلاں ملک میں کشتی ڈوب گئی تو وہاں کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا۔اب وزیر اعظم تو کشتی نہیں چلا رہا تھا۔تو جناب ہر واقعے‘ ہر سانحے ‘ ہر معاملے ‘ ہر ایشو پر ہمارے کپتان کا ’’فرمایا ہوا‘‘ عوام خود ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں کہ جناب وزیر اعظم اب اپنے انقلابی فرامین کی روشنی میں طے کیجیے کہ بطور حکمران آپ کو کیا کرنا ہے۔ ٹرین کے حالیہ المناک حادثے پر جب کپتان کے فرامین آئینہ در آئینہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو ئے تووزیر ریلوے شیخ رشید سے استعفیٰ لینے کی آوازیں بھی بڑھنے لگیں۔ ٹرینوں کے حادثات بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہوتے رہتے ہیں مگر جب سے وزیر موصوف نے انتظامی معاملات سنبھالے ہیں حادثات میں اضافہ ہو گیاہے۔ ایک خبر کے مطابق شیخ رشید جب سے وزیر بنے ہیں ایک ڈیڑھ سال میں ٹرینوں کے چھوٹے بڑے 79حادثات ہو چکے ہیں لیکن جس معاشرے میں انسانیت کی جگہ بے حسی لے چکی ہو اور قانون کی جگہ لاقانونیت کا راج ہو وہاں 74انسانوں کا ٹرین میں زندہ جل کر مر جانا، صرف چند روز کی سنسنی اور خبریت کے بعد اپنی اہمیت کھو دیتاہے۔ ایسے حادثوں پر استعفیٰ دینے کی اعلیٰ روایات ہمارا اثاثہ نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی ایسے حادثوں کی غیر جانبدار انکوائریاں ہمارے ملک میں ہوئی ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔اس المناک حادثے کا ایک پہلو بہت اہم ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے وہی اس حادثے کی وجہ سے ہے۔ گیس کے سلنڈر کا پھٹ جانا آگ لگنے کا باعث ہوا تبلیغی جماعت کے افراد اپنے ساتھ گیس کے چولہے سامان میں رکھ کر ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ یعنی گھر سے زاد راہ میں حادثے کا سامان ساتھ لے کر چلتے ہیں۔پھرچلتی ٹرین میں چولہا جلا کر چائے پینے کا ایڈونچر کرنے کا شوق ہے اور اس شوق میں بس اک جان کا زیاں ہے ۔ سو ایسا زیاں نہیں!ریلوے سٹیشنوں پر چیکنگ کا کوئی نظام ؟ کوئی سکرینیں اور سکیننگ سسٹم ! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چند بڑے سٹیشنوں پر ہو تو ہو۔ وہاں بھی پولیس والے کی مٹھی گرم کریں اور اپنے زاد راہ میں حادثے کا سب سامان ساتھ لے کر جائیں۔! خدارا! اس بے ہنگم ہجوم کو شعور اور بنیادی سوک سینس سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ یہاں پورا اہتمام کیا گیاہے کہ صبح شام بلکہ 24گھنٹے ان کو سیاسی تجزیوں کی ڈوز دی جاتی رہے۔اور پھر یہ بے سمت مخلوق سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اپنے اپنے سیاسی خدائوں کے جوتے سیدھے کرے۔ دوسروں پر لعنتیں ملامتیں بھیجے۔ اور جو وقت بچ رہے دوسروں کا اخلاقی قبلہ درست کرنے کی کوشش کرے۔ خود سگنل توڑیں۔ ون وے کی خلاف ورزی کر کے حادثات کا باعث بنیں۔ پارکوں سیر گاہوں کو اپنی باقیات سے گندہ کریں۔ گھر کا کوڑا جمع کر کے سڑک پر پھینکیں۔ گیس بجلی پوری کرنا اپنا حق سمجھیں۔ سڑکوں پر تھوکیں‘ ٹیکس بچائیں‘ جھوٹ بول کر مال بیچیں۔ گھریلو ملازمین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کا حق ماریں، ویسے تبلیغی دورے کریں۔ چلہ کاٹیں دوسروں کو تبلیغ کی طرف بلائیں لیکن ریاست کے قانون کو پیروں تلے روند کر گیس کے چولہوں کے ساتھ ٹرین میں سفر کریں۔ کون نہیں جانتا کہ گیس کے سلنڈر اور چولہے جلانا اور لے کر جانا غیر قانونی ہے اور اتنا ہی خطرناک ہے جیسے آپ کسی بارود کے بم کو سامان میں لے کر سفر کر رہے ہوں۔ حکومت انتظامیہ وزیر ریلوے سب نااہل ہیں مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ ہم کیاہیں۔ مولانا کا دھرنا اب مومنیٹم پکڑ چکا ہے اور میڈیا کی تمام توجہ کا مستحق ہے۔74جانوں کا المناک سانحہ اپنی خبریت کھو چکا ہے کہ شہر اقتدار میں مولانا کا دبنگ پڑائو اسے Eclipseکر چکاہے۔ سیاسی سرکس کے اس ہائوس فل شو کے درمیان یہ ٹرین حادثہ میڈیا اور حکومت کے لئے محض ایک وقفہ ہی تھا۔!