کیا یہ دنیا سیاستدانوں نے بنائی ہے؟ آپ حمورابی‘ افلاطون‘ پنڈت چانکیہ ‘ روسو اور ہمارے عہد کے نوم چومسکی اور ہنری کسنجر جیسے فلسفیوں تک کو پڑھے ہوں گے۔ پھر بتائیے کیا یہ دنیا سیاسی مفکرین نے بنائی ہے؟ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اسے بادشاہوں اور شاعروں نے بنایا ہے۔ شاعر خواب دیکھتا ہے۔ بادشاہ خواب پورے کرتا ہے۔ بادشاہ کے خواب جنگ میں غلبہ حکومت‘ طاقت اور مال و زر میں اضافہ سے متعلق ہوتے ہیں۔ شاعر کے خواب انسانی آزادیوں‘ اظہار رائے کے حق اور محبت کے سنہری ریشم سے بنے ہوتے ہیں۔ یوں بادشاہوں اور شاعروں کے خواب ایک دوسرے سے ٹکراتے اور تاریخ کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہیگل اسے جدلیاتی عمل قرار دیتا ہے جبکہ کارل مارکس نے اس عمل کو مادی جدلیات کے طور پر پیش کیا۔ حیرت یہ ہے کہ بادشاہوں کے ہر عمل کو تاریخ کا انمول رتن سمجھ کر کتابوں میں محفوظ کیا گیا۔ یادگاریں تعمیر کی گئیں مگر شاعر کے خواب سینہ بہ سینہ زندہ رہے۔ شاعر کو فطرت پسند‘ رومان پسند‘ انقلابی اور مزاحمتی خانوں میں بانٹنے کے باوجود وہ شاعر ہی رہا‘ اس کے خواب ان ہی اساطیری خوابوں کا حصہ رہے جو دنیا کے پہلے شاعر نے پہلی محبت کے بعد دیکھے تھے۔ دو شاعر ایسے ہیں جن سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس رہا‘ شاید یہ دونوں چند برس حیات رہتے تو ہم ان سے ملنے کی عمر کو پہنچ جاتے۔ ایک ساغر صدیقی اور دوسرے حبیب جالب۔ جالب کی تاریخ پیدائش اور ساغر کی تاریخ وفات جولائی کی ہے۔ نوے کی دہائی میں کوٹ لکھپت ریلوے سٹیشن کے پاس رہا کرتے تھے۔ غالباً19جولائی کو ساغر صدیقی کا عرس ہوتا۔ بابا یونس ادیب بھاگ بھاگ کر سب معاملات دیکھ رہے ہوتے۔ میانی صاحب قبرستان میں رات گئے محفل سجتی۔ ساغر سے عقیدت رکھنے والے گلو کار ‘ سازندے ‘ موسیقار‘ فنکار‘ شاعر اور سیاسی رہنما حاضر ہوتے۔مختلف فنون کے اپنے عہد کے کئی اساتذہ کو وہاں دیکھا۔ ان لوگوں کے کام اور نام سے عام لوگ نا آشنا ہیں مگر شاعر جس دنیا کو تخلیق کرتا ہے اس میں ان کا بڑا مقام تھا۔ ایک بار رات دو بجے محفل ختم ہوئی۔ میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ چوبرجی کے پاس سڑک پر کھڑا تھا۔ کوئی سواری دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ سبزی سے بھرا ایک ٹرک آیا تو رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے پچھلے حصے پر سوار ہونے کا اشارہ کیا۔ ٹرک کوٹ لکھپت سبزی منڈی جا رہا تھا۔ ایک مزدور سے تعارف ہوا تو وہ ناخواندہ آدمی سفر میں بولیاں سناتا رہا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان بولیوں کا خود شاعر ہے۔ ساغر صدیقی کے اشعار کو لافانی زندگی ملی: جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے ٭٭٭٭٭ فقیہہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے ایک میلے کچیلے کمبل میں فٹ پاتھ پر رہنے والے ساغر صدیقی نے صدر ایوب خان سے ملنے سے انکار کیا۔ کیا آج کے نامی گرامی اور عظیم شاعر کسی حکمران کی دعوت ملاقات کو مسترد کرنے کی جرأت رکھتے ہیں؟ انیس سو ستر اور اسی کا عشرہ پاکستان میں سماجی جدلیات کا زمانہ ہے۔ حبیب جالب اس جدلیاتی عہد کی نمائندہ سوچ ہیں۔ اگرچہ انتظار حسین جیسے سینئر ناقدین نے انہیں کبھی مزاحمتی شاعر تسلیم نہیں کیا مگر اس سے حبیب جالب کا قد کم نہیں ہو گا۔ حبیب جالب عجیب آدمی تھے تعلق پنجاب سے تھامگر ساری زندگی نیشنل عوامی پارٹی میں رہے۔ محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابل صدارتی امیدوار تھیں۔ جالب ان کی تقریر سے قبل نظم پڑھ کر سماں باندھ دیا کرتے۔ ایک جلسے میں محترمہ فاطمہ جناح نے یہ کہہ کر جالب کو روک دیا کہ ’’یہ گانا وانا چھوڑو‘‘ جالب اس پر بہت دل گرفتہ ہوئے۔ جالب نے اپوزیشن کے جلسوں میں جانے سے انکار کردیا۔ اپوزیشن رہنمائوں کو معلوم تھا کہ اصل جلسہ تو جالب کی نظموں سے جمتا ہے۔ مگر مادر ملت سے بات کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ اس دوران گجرات میں جلسے کی تاریخ آ گئی ایک مسلم لیگی شاعر کو مادر ملت سے قبل نظم سنانے کی دعوت دی گئی۔ ابھی اس شاعر نے نظم کا آغاز کیا تھا کہ مادر ملت نے کھڑے ہو کر کہا’’نونو‘‘ اگر یہ نظم پڑھے گا تو poorجالب ناراض ہو جائے گا‘‘جالب کو خبر ہوئی تو اگلے جلسے میں پہنچ گئے۔ اس جلسے میں انہوں نے مادر ملت کے لئے لکھی نظم’’بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کر یہ بولی‘‘ ان کے سامنے پڑھی۔ جالب صاحب کو فلمساز ریاض شاہد نے بتایا کہ اداکارہ نیلو بیگم کو گورنر ہائوس میں شاہ ایران کی ضیافت میں رقص کے لئے بلایا گیا۔ انکار پر دھمکی دی گئی جس پر نیلو نے نیند کی گولیاں کھا لیں۔ اب ان کی جان کو خطرہ ہے۔ جالب نے ہسپتال پہنچتے پہنچتے نظم لکھی دی توکہ ناواقف آداب شہنشاہی تھی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے آج مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر ن لیگی جلسوں میں نعرے لگواتے ہیں۔’’ڈرتے ہیں بندوقوں والے۔ ایک نہتی لڑکی سے‘‘ بھٹو صاحب کے خلاف جالب نے مزاحمت کی مگر جب جنرل ضیاء الحق کے دورمیں بے نظیر بھٹو کی حراست اور پابندیوں کا معاملہ آیا تو جالب خاموش نہ رہے۔ شاعر ذاتی عناد نہیں رکھتا وہ بول پڑے: ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے ہمارے سینئر دوست مجاہد بریلوی نے ’’جالب جالب‘‘ لکھ کر جالب کو سمجھنے کا بہت سا مواد فراہم کیا ہے۔ کئی نظموں اور غزلوں کا پس منظر پڑھ کر اس بات پر یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ یہ دنیا شاعروں اور بادشاہوں نے بنائی ہے۔